Maktaba Wahhabi

158 - 849
﴿ وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ’’اور لازم ہے کہ تم میں ایک ایسی جماعت ہو جو نیکی کی طرف دعوت دیں اور اچھے کام کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا تفسیر:… یاد رہے ہر متنفس پر تبلیغ حق فرض ہے لیکن تاہم ایک جماعت تو خاص اسی کام میں مشغول رہنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے اسے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگر یہ بھی نہ کر سکتا ہو تو اپنے دل سے نفرت کرے یہ ضعیف ایمان ہے۔[1] امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ امت مسلمہ کی اجتماعی زندگی کا ایک نہایت اہم ستون ہے اسی لیے کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر اس کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر خلافت کے مستحق لوگوں کا ذکر فرمایا تو ان کی صفات میں اقامت صلوۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے بعد تیسرے نمبر پر اسی صفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر فرمایا (۲۲:۴۱) اسی لیے بعض علماء نے اسے فرض عین قرار دیا ہے ان کا یہ خیال ہے کہ ہر مسلمان اپنی اپنی علمی سطح اور صلاحیت کے مطابق یہ فریضہ بجا لا سکتا ہے اور یہ بات بھی بالکل درست ہے اور بہت سی احادیث صحیحہ سے اس کی تائید ہوتی ہے تاہم اس آیت میں جس فرقہ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں ۔ جو علم شریعت کے ماہر اور دعوت کے آداب سے واقف ہوں اور ان کی زندگی کا وظیفہ ہی یہ ہونا چاہیے کہ وہ لوگ کو اچھے کاموں کا حکم دیا کریں اور برے کاموں سے روکتے رہیں ۔ نیز ﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ﴾ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خواہ کتنا ہی اہم فریضہ ہے تاہم فرض عین نہیں ہے۔[2] امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ پہلی بات زیادہ درست ہے وہ واضح کرتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ فرض کفایہ ہے۔‘‘[3]
Flag Counter