Maktaba Wahhabi

157 - 849
طرف سے حج کروا سکتا ہے جو پہلے خود اپنا فریضہ حج ادا کر چکا ہو اور اسے حج بدل کہتے ہیں ۔ اسی طرح اگر کسی نے حج کی نذر مانی ہو اور نذر پوری کرنے سے پیشتر مر جائے تو اس کے پس ماندگان پر اس نذر کو پورا کرنا فرض ہو جاتا ہے جیسا کہ خود اس پر فرض ہو چکا تھا۔ خواہ یہ نفلی حج ہو۔ اگر راستہ پر خطر ہے تو جب تک خطرہ دور نہ ہو حج ساقط ہو جاتا ہے۔ قرضہ اٹھا کر یا مانگ کر یا سواری مہیا ہونے کے باوجود پیدل سفر حج کرنا کوئی نیکی نہیں اور اگر کسی نے ایسی غلط قسم کی نذر مانی ہو تو اسے ایسی نذر توڑ کر درست کام کرنا چاہیے۔[1] ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم نخعی رحمہ اللہ کا قول لے کر آئے ہیں ان کا کہنا ہے: بلاشبہ محرم عورت کے لیے ’’سبیل‘‘ سے ہے۔ (یعنی محرم ہو تو عورت صاحبۂ استطاعت شمار ہو گی) وہ سبیل جس کا اللہ نے بتایا ہے، نیز تحقیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کو ذی محرم کے بغیر سفر سے روکنا ثابت ہے البتہ مدت کی مقدار بارے احادیث مختلف ہیں ، چنانچہ ایک حدیث کے الفاظ میں تین دن کا آیا ہے، ایک میں ایک دن اور ایک رات کا آیا ہے اور ایک میں ایک برید مسافت کا آیا ہے۔[2]یعنی اتنی مسافت کا سفر عورت ذی محرم کے بغیر نہیں کر سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: لوگو! تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے۔ تم حج کرو ایک شخص نے پوچھا: حضور کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے۔ اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا آپ نے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو فرض ہو جاتا، پھر بجا نہ لا سکتے جب خاموش رہوں تو تم کرید کر مت پوچھا کرو تم سے اگلے لوگ انبیاء سے سوالوں کی بھرمار اور نبیوں پر اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے میرے حکموں کو طاقت بھر بجا لاؤ اور جس چیز سے منع کروں اس سے رک جاؤ۔ ’’مسند احمد‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘ شریف میں اس قدر زیادتی ہے کہ یہ پوچھنے والے اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ تھے۔[3] حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ طاقت رکھ کر حج نہ کرنے والا یہودی ہو کر مرے گا یا نصرانی ہو کر اس کی سند بالکل صحیح ہے۔‘‘[4] ’’مسند سعید بن منصور‘‘ میں ہے کہ سیوطی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ مختلف شہروں کی طرف بندے دوڑاؤں وہ دیکھیں کہ جو لوگ باوجود مال رکھنے کے حج نہ کرتے ہوں ان پر جزیہ لگا دیں وہ مسلمان نہیں ہیں ۔[5]
Flag Counter