Maktaba Wahhabi

384 - 849
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ﴿٥٩﴾ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا ﴾ ’’پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ان کی جگہ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کو ملیں گے۔ مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا۔ ‘‘ انبیاء علیہم السلام وہی دین لے کر آئے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہے مگر انبیاء کے گزر جانے کے بعد ان کی امتیں بگڑتی رہی ہیں اور آج مختلف امتوں میں جو گمراہیاں پائی جا رہی ہیں یہ اسی بگاڑ کا نتیجہ ہے۔ آخری دو رکوعوں میں کفار مکہ کی گمراہیوں پر سخت تنقید کی گئی ہے اور کلام ختم کرتے ہوئے اہل ایمان کو مژدہ سنایا گیا ہے کہ دشمنان حق کی ساری کوششوں کے باوجود بالآخر تم محبوب خلائق ہو کر رہو گے۔ [1] تفسیر:… اکثر کے نزدیک ’’اضاعۃ الصلاۃ‘‘ سے مراد اسے وقت سے موخر کر کے پڑھنا ہے۔ [2] علامہ مودودی فرماتے ہیں : ’’یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے یہ ہر امت کے زوال وانحطاط کا پہلا قدم ہے نماز وہ اولین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق ہر وقت خدا سے جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز ومحور سے بچھڑنے نہیں دیتا یہ بندھن ٹوٹتے ہی آدمی خدا سے دور اور دور ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ عمل تعلق سے گزر کر اس کا خیال تعلق بھی اللہ سے باقی نہیں رہتا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر بیان فرمائی ہے کہ پچھلے تمام انبیاء کی امتوں کا بگاڑ نماز ضائع کرنے سے شروع ہوا ہے۔‘‘[3] نماز کا ترک ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو اسے بالکل چھوڑ بیٹھنا ہے اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ اور بہت سے سلف وخلف کا مذہب ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے یہی ایک قول ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی۔
Flag Counter