Maktaba Wahhabi

664 - 849
اسماعیل علیہما السلام کے مجسمے گرے ہوئے پائے جن کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ نے فرمایا، اللہ انہیں غارت کرے انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی۔[1] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پا سکتا جو کہانت کرے یا تیر اندازی کرے یا کسی بدفالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے۔[2] کیا استخارہ فال گیری کا بدل ہے؟ سوال : کیا استخارہ فال گیری کا بدل ہے؟ جواب : جی ہاں ! اسلام فال گیری کی بجائے استخارے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے مومنوں کو حکم ہے کہ جب کسی کام میں تردد ہو تو استخارہ کر لو، اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو۔[3] بخاری وسنن میں مروی ہے سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بھی تعلیم فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی اہم کام آن پڑے تو اسے چاہیے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے: ((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ہٰذَا الْاَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ہٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْلِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ))[4] ’’یعنی اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعے بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے بڑے فضل کا طالب ہوں یقینا تو ہر
Flag Counter