Maktaba Wahhabi

119 - 849
﴿ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٤٠﴾ وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴾ ’’اور جو لوگ تم میں سے فوت کیے جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں وہ اپنی بیویوں کے لیے ایک سال تک نکالے بغیر سامان دینے کی وصیت کریں ، پھر اگر وہ نکل جائیں تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو وہ معروف طریقے میں سے اپنی جانوں کے بارے میں کریں اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ اور ان عورتوں کے لیے جنھیں طلاق دی گئی ہے، کچھ نہ کچھ سامان دینا معروف طریقے سے (لازم) ہے، پرہیز گاروں پر یہ حق ہے۔‘‘ تفسیر:… یہ حکم ابتدائے اسلام میں نازل ہوا تھا … اب کے لیے تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدّت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے، بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمے اور ترکہ ہی سے ہو گا اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہو گیا۔[1] لہٰذا جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ (آیت) منسوخ ہے۔[2] مطلقہ عورتوں کو دے دلا کر رخصت کرنے کا حکم یہ حکم عام ہے جو ہر مطلقہ عورت کو شامل ہے اس میں تفریق کے وقت جس حسن سلوک اور تطییب قلوب کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے اس کے بے شمار معاشرتی فوائد ہیں ۔ کاش! مسلمان اس نہایت اہم نصیحت پر عمل کریں جسے انہوں نے بالکل فراموش کر رکھا ہے۔ آج کل کے بعض مجتہدین نے ’’مَتَاعٌ‘‘ اور متِّعوھُنَّ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مطلقہ کو اپنی جائیداد میں سے باقاعدہ حصہ دو یا عمر بھر نان و نفقہ دیتے رہو۔ یہ دونوں باتیں بے بنیاد ہیں بھلا جس عورت کو مرد نے نہایت ناپسندیدہ سمجھ کر اپنی زندگی سے ہی خارج کر دیا ، وہ ساری عمر کس طرح اس کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے تیار ہو گا۔ [3]
Flag Counter