(۴) مہر مقرر نہ ہوا ہو مگر صحبت ہو چکی ہو اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہو گا، یعنی اتنا مہر جو اس عورت کے قبیلے میں عام رواج ہے۔ بیوہ کے لیے بھی یہی چار صورتیں ممکن ہیں مگر اس کے احکام میں اختلاف ہے، جو یہ ہے کہ مہر مقرر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور مرنے والے خاوند نے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو، عورت کو بہرحال پورا مہر ملے گا۔ اگر مہر مقرر تھا تو اتنا ہی ملے گا اور اگر مقرر نہیں تھا تو مہر مثل ملے گا اور اس کی دلیل آیت نمبر ۲۳۴ البقرۃ کے تحت مذکور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔[1] ﴿اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ﴾ ایک قول ہے کہ یہ خاوند ہے۔ ایک قول ہے کہ یہ ولی ہے۔ پہلی بات دو وجہوں سے راجح ہے۔ (۱) حقیقی طور پر نکاح کی گرہ خاوند کے ہاتھ ہوتی ہے۔ (۲) اس کا عفو سے کام لینا یہ مہر کو پورا ادا کرنا ہے یہ ولی کے برعکس وہ کر سکتا ہے جو مالک ہے اور مطلق طور پر تصرف (مال دینے نہ دینے) کا حق رکھتا ہے۔[2] ﴿وَ لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ﴾ یعنی انسانی تعلقات کی بہتری و خوش گواری کے لیے لوگوں کا باہم فیاضانہ برتاؤ کرنا ضروری ہے اگر ہر ایک شخص ٹھیک ٹھیک اپنے قانونی حق پر ہی اڑا رہے گا تو اجتماعی زندگی کبھی خوش گوار نہیں ہو سکتی۔[3] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |