﴿ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿٢٩﴾ إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا ﴿٣٠﴾ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا ﴾ ’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کرلے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔ بے شک تیرا رب رزق فراخ کرتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے، بے شک وہ ہمیشہ سے اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔ اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انہیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ خرچ کرنے میں اعتدال تفسیر:… اپنا ہاتھ گردن سے باندھنا محاورہ ہے جس کا معنی ہے بخل کرنا یعنی خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لینا چاہیے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کر دینا چاہیے کہ اپنی ضروریات کے لیے بھی کچھ نہ رہے اور خود انسان تکلیف میں پڑ جائے خواہ یہ خرچ انفاق فی سبیل اللہ کی صورت ہو یا اپنی ضرورت کے سلسلہ میں ۔ انفاق فی سبیل اللہ کی سب سے اونچی حد یہ ہے کہ ’’وہ سب خرچ کر دیا جائے جو ضرورت سے زائد ہو۔ (البقرۃ: ۲۱۹) یعنی اس فرمانِ الٰہی میں ضرورت سے زائد خرچ کرنے کا کہا گیا ہے سارا نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا افضل صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا: ((اَلصَّدَقَۃُ عَنْ ظَہْرِ غِنًی)) یعنی ’’وہ صدقہ جس کے بعد آدمی محتاج یا صدقہ لینے کے قابل نہ ہو جائے۔‘‘ (بخاری) نیز حدیث میں ہے جو میانہ روی اختیار کرے وہ محتاج نہیں ہوتا۔[1] بخل و سخاوت کے متعلق احادیث حدیث میں ہے کہ بخیل و سخی کی مثال ان دو شخصوں کی سی ہے جن پر دو لوہے کے جبے ہوں سینے سے گلے تک۔ سخی تو جوں جوں خرچ کرتا ہے اس کی کڑیاں ڈھیلی ہو جاتی ہیں اور اس کے ہاتھ کھلتے جاتے ہیں اور وہ جبہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے پورے تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے اثر کو مٹاتا ہے اور بخیل جب کبھی خرچ کا ارادہ کرے تو اس کے جبے کی کڑیاں سمٹ جاتی ہیں وہ ہر چند اسے وسیع کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |