Maktaba Wahhabi

219 - 849
ان کے خاوندوں نے تعلق قائم نہیں کیا۔ (ان کی بیٹیاں حلال ہیں ۔ لیکن اگر تعلق قائم ہو چکا ہو تو پھر نہیں )۔ جمہور سلف نے یقینا یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ ماں ، بیٹی سے نکاح ہوتے ہی حرام ہو جائے گی جبکہ بیٹی تب تک حرام نہیں ہو گی جب تک ماں سے دخول نہیں ہو جاتا۔[1] حرام رشتوں کی توضیح نیز یہ بات علم میں رہے کہ ’’امہات‘‘ کے لفظ میں ان کی مائیں ، دادیاں ، نانیاں اوپر تک سب آ جاتی ہیں کیونکہ نیچے تک جتنے بچے پیدا ہوئے ہیں وہ سب کی مائیں ہیں ۔ لفظ ’’بنات‘‘ میں بیٹیوں کے علاوہ پوتیاں نیچے تک سب آ جاتی ہیں ۔ لفظ ’’اخوات‘‘ (بہنیں ) یہ لفظ سگی یا والدین میں سے ایک کی طرف سے بننے والی سبھی بہنوں پر بولا جاتا ہے۔ ’’عمۃ‘‘ پھوپھی کا لفظ یہ ہر اس مونث پر بولا جاتا ہے جو باپ کے ساتھ شریک ہو یا تیرے دادے کے ساتھ یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اور تحقیقی طور پر یہ عمہ ماں کی جہت سے بھی ہوتی ہے جو کہ نانے کی بہن ہوتی ہے۔ اور ’’خالۃ‘‘ ہر اس مونث پر بولا جاتا ہے جو ماں باپ دونوں یا ایک کی جانب سے تیری ماں کی شریک ہو اور یہ ’’خالہ‘‘ باپ کی جانب سے بھی ہوتی ہے جو تیری دادی کی بہن ہو۔ اور ’’بنت الاخ‘‘ (بھتیجی) ہر اس مونث کا نام ہے جو تیرے بھائی کی جانب سے جنی گئی ہو براہ راست (مثلاً اس کی بھتیجی) اور واسطے کے ساتھ (مثلاً بھتیجی کی اولاد وغیرہ) اور اگرچہ یہ ناطہ دور تک چلا جائے گا۔ ایسے ہی بھانجی کا معاملہ ہے۔[2] رضاعت کے رشتے اور احکام رضاعت ۱۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رشتے نسب کی رُو سے حرام ہیں وہ رضاعت سے حرام ہو جاتے ہیں ۔[3] ۲۔ عقبہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا۔ پھرایک عورت آئی اور کہنے لگی:میں نے عقبہ اور اس کی بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے، میں نے اسے کہا: میں تو نہیں سمجھتا تو نے مجھے دودھ پلایا ہے نہ ہی تو نے مجھے کبھی بتایا۔ پھر میں سوار ہو کر مدینہ آپ کے پاس پہنچا اور آپ سے
Flag Counter