Maktaba Wahhabi

418 - 849
دئیے جائیں اور بہت زیادہ کمزور ہو تو جھاڑو وغیرہ سے جس میں سو تنکے ہوں اسے سزا دے کر حد پوری کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر عورت حاملہ ہو یا نفاس میں ہو یا بچہ کود ودھ پلاتی ہو تو سزا کو اس وقت تک مؤخر کیا جائے گا کہ وہ عورت اس حالت سے فارغ ہو جائے۔ ۳۔ سو کوڑے کی شرط یہ ہے کہ مجرم آزاد، عاقل و بالغ ہو مجنون و دیوانہ نہ ہو۔ ۴۔ بعض مسلمانوں کے نزدیک مسلمان ہونا بھی شرط ہے اور ذمیوں پر اس کا اطلاق نہ ہوگا اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی جوڑے کو رجم کروایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کتاب میں یہی سزا واجب تھی اور ان سے اعتراف بھی کروایا گیا تھا۔ ۵۔ اگرچہ سابقہ حدیث میں شادی شدہ زانی یا زانیہ کی سزا سو کوڑے اور رجم دونوں ہیں تاہم دور نبوی اور خلفائے راشدین میں صرف رجم پر ہی اکتفا کیا جاتا رہا ہے البتہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ایک محصنہ زانیہ کو یہ دونوں سزائیں دیں جمعرات کے دن اس کو سو کوڑے لگائے اور یہ فرمایا یہ سزا کتاب اللہ کے مطابق ہے اور جمعہ کے دن اسے رجم کیا اور فرمایا یہ سزا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے یہ واقعہ مسند احمد میں تفصیلاً مذکور ہے اور بخاری میں مجملاً۔[1] ۶۔ اگر انسان سے کوئی بے حیائی کا ایسا جرم سر زد ہو جائے جس پر حد لاگو ہوتی ہو تو اسے چاہیے کہ عدالت میں جا کر اعتراف کر نے کی بجائے اللہ سے توبہ واستغفار کرے۔ ۷۔ اسی طرح اگر کسی دوسرے کو گناہ میں مبتلا دیکھ لے تو اسے اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرنا چاہیے ایسا نہ کرے کہ عدالت میں یا حاکم کے پاس اس کی رپورٹ کر دے یا دوسروں کو بتایا پھر بشرطیکہ اس جرم کا تعلق حقوق اللہ سے ہو حقوق العباد سے نہ ہو۔ ۸۔ مقدمہ عدالت میں آجانے کے بعد مجرم کے حق میں سفارش کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ ۹۔ جرم ثابت ہو جانے کے بعد قاضی حد کی سزا میں کوئی کمی بیشی کرنے کا مجاز نہیں ۔ قاضی اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں دے سکتا ۱۰۔ فوجداری مقدمات میں قاضی اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں دے سکتا ایسے فیصلے اسے شہادتوں کی بنیاد پر ہی کرنے ہوں گے۔ ۱۱۔ حد جاری ہو جانے کے بعد مجرم اس گناہ سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے لہٰذا اسے برے لفظوں سے قطعاً یاد نہ کیا جائے اس پر جنازہ بھی پڑھا جائے گا اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔
Flag Counter