Maktaba Wahhabi

633 - 849
کر دے، اللہ بڑا معاف کرنے والا درگزر کرنے والا ہے۔‘‘ ان آیات کے ذیل میں سید مودودی فرماتے ہیں : یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص اللہ کے دین پر ایمان لایا ہو اس کے لیے نظام کفر کے تحت زندگی بسر کرنا صرف دو ہی صورتوں میں جائز ہو سکتا ہے، ایک یہ کہ وہ اسلام کو اس سر زمین میں غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتا رہے جس طرح انبیاء علیہم السلام اور ان کے ابتدائی پیروکار کرتے رہے ہیں دوسرے یہ کہ وہ درحقیقت وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو اور سخت نفرت وبیزاری کے ساتھ وہاں مجبورانہ قیام رکھتا ہو ان دو صورتوں کے سوا ہر صورت میں دارالکفر کا قیام ایک مستقل معصیت ہے اور اس معصیت کے لیے یہ عذر کوئی بہت وزنی عذر نہیں ہے کہ ہم دنیا میں کوئی ایسا دارالسلام پاتے ہی نہیں جہاں ہم ہجرت کر کے جا سکیں ، اگر کوئی دارالسلام موجود نہیں ہے تو کیا خدا کی زمین میں کوئی پہاڑ یا کوئی جنگل بھی ایسا نہیں ہے جہاں آدمی درختوں کے پتے کھا کر اور بکریوں کا دودھ پی کر گزر کر سکتا ہوں اور احکام کفر کی اطاعت سے بچا رہے۔ نماز اور نماز قصر کرنے کے احکام و مسائل سوال : نماز قصر کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب : نماز قصر کرنا یہ اللہ کی جانب سے ایک مسلمان مسافر کے لیے چھوٹ ہے قرآن میں ہے: ﴿وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ﴾ (النسآء: ۱۰۱) ’’اور جب تم زمین میں چلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز سے قصر کرو۔‘‘ ایک تاکیدی سنت، اکثر ائمہ نے درج ذیل ادلّہ کی وجہ سے انہیں واجب کہا ہے، بخاری میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ((اَوَّلُ مَا فُرِضَتْ الصَّلَاۃُ رَکْعَتَانِ فَأُمِرَّتْ صَلَاۃُ السَّفَرِ وَأُتِمَّتْ صَلَاۃُ الْحَضَرِ۔))[1] ’’اول دفعہ نماز دو رکعت فرض ہوئی پھر سفری نماز یونہی برقرار رکھی گئی جبکہ اقامتی نماز پوری کر دی گئی۔‘‘ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: ((إِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ الصَّلَاۃَ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکُمْ عَلَی الْمُسَافِرِ رَکْعَتَیْنِ وَعَلَی
Flag Counter