عام میں سماع موتیٰ کا مسئلہ کہا جاتا ہے سو اس آیت میں اس بات کی مکمل نفی ہے کہ وہ قیامت تک بھی دنیا والوں کی پکار نہیں سن سکتے تاہم بعض آیات سے اتنا اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے نیز صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا سلام فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے اور یہ بھی قرآن میں صراحت سے مذکور ہے کہ مرنے کے بعد نیک لوگوں کی ارواح علیین میں اور بدکاروں کی ارواح سجین میں ہوتی ہیں اور وہاں دنیا والوں کی آواز براہ راست اور بلا واسطہ نہیں سن سکتے کیونکہ وہ عالم بھی دوسرا ہے۔ اللہ کا فوت شدگان کو سنانے کا ضابطہ اب سنانے کے متعلق بھی اللہ کا ضابطہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کو صرف وہی خبر پہنچائی جاتی ہے جس سے ان کی راحت میں اضافہ ہو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرامت کا سلام پہنچایا جا تا ہے اور نیک اولاد کی دعائیں ان کے والدین کو پہنچا دی جاتی ہیں انہیں کوئی ایسی خبر نہیں پہنچائی جاتی جو ان کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔ اور بدکاروں کو کوئی راحت انگیز خبر نہیں سنائی جاتی انہیں صرف ایسی خبریں سنائی جاتی ہیں جو ان کے لیے مزید سو ہاں روح بن جاتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں میں پھینکے ہوئے مقتول کافروں سے ان کی سرزنش اور زجر و توبیخ کے طور پر خطاب کیا تھا اور اللہ نے وہ بات ان تک پہنچا دی تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے استفسار پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ جواب دیا تھا کہ وہ تم سے کچھ کم نہیں سن رہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: روح، عذاب قبر اور سماع موتیٰ)[1] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |