اس کے ذمے قضا لازم ہے اور اگر نفلی حج ہے تو پھر کوئی قضا نہیں ۔[1] (اگر تو دشمن یا کسی دوسری وجہ سے قربانی آگے نہیں بھیج سکتا تو ادھر ہی قربان کر دے جیسے حدیبیہ کے موقع پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ورنہ) وہ کسی دوسرے کے ہاتھ قربانی بھیج دے یا اسے تاکید کر دے کہ وہ مناسب وقت پر اس کی طرف سے قربانی کر دے اور جس وقت تک اسے یقین نہ ہو جائے کہ اس وقت تک قربانی ہو چکی ہو گی اس وقت تک سر نہ منڈوائے۔ ایسی قربانی کو دم احصار کہتے ہیں جو حج و عمرہ سے رکنے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔[2] مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ جس شخص کا ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے یا بیمار ہو جائے یا اپاہج ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا وہ اگلے سال حج کرے۔[3] فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا کا شان نزول آیت کا معنی یہ ہے کہ جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو وہ سر منڈوا لے تو اس کے ذمے فدیہ ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ احرام باندھے ہوئے ہیں اور جوئیں ان کے چہرے پر گر رہی ہیں تو پوچھنے لگے: کیا تیرے سر کی جوئیں تجھے تکلیف پہنچا رہی ہیں ؟ وہ کہتے ہیں : ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ سر منڈوا لے اور چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا بکری ذبح کر دے یا تین دن کے روزے رکھ لے۔‘‘[4] ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کا کوئی اختلاف نہیں کہ ’’نسک‘‘ سے یہاں مراد بکری ہے۔[5] چاروں اماموں اور اکثر علماء کا بھی یہی مذہب ہے کہ اگر چاہے روزے رکھ لے اگر چاہے صدقہ کر لے اگر چاہے قربانی کر لے روزے تین ہیں ۔ صدقہ ایک فرق (یعنی تین صاع یعنی آٹھ سیر میں آدھی چھٹانک کم) ہے چھ مسکینوں پر تقسیم کر دے اور قربانی ایک بکری ہے۔[6] مالک و مجاہد کہتے ہیں : یہ سارے فدیے جہاں چاہے دے سکتا ہے (کوئی جگہ متعین نہیں ) اور بات بھی |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |