Maktaba Wahhabi

643 - 849
چہرے کے لیے بدنمائی کا باعث ہیں ، جہاں تک ابرو کا تعلق ہے تو ان کا باریک یا پتلا ہونا یا چوڑا اور گھنا ہونا یہ سب کچھ امر معتاد ہے اور معتاد سے تعرض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بعض لوگ اسے عیب نہیں سمجھتے بلکہ بعض ان کے نہ ہونے کو اور بعض ان کے ہونے کو خوبصورتی سمجھتے ہیں ۔ یہ ایسا عیب نہیں ہے کہ انسان کو اس کے ازالے کی ضرورت پیش آئے۔[1] سوال : ایک عورت کا سوال ہے کیا ہمیں سیاہ رنگ کے علاوہ دوسرے رنگوں سے بال رنگ لینا جائز ہے؟ جواب : ہاں جائز ہے، بشرطیکہ سیاہ رنگ سے بچے اور میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ عورت کی زینت وہ ہے جس میں رنگ نمایاں اور خوشبو مخفی ہو۔[2] سوال : ایک دوشیزہ کے ابروؤں کے بال بہت زیادہ گنجان اور ڈھلکے ہوئے ہیں تو اس نے ایک دوسری عورت سے پوچھا تو اس نے کہا کہ زائد بالوں کو اگر دور کر دو تو کوئی حرج نہیں ؟ جواب : ہاں ان کا زائل کرنا جائز نہیں ہے، سوائے اس عورت کے ، جس کے اتنے لمبے ہوں کہ آنکھوں پر پڑتے اور نظر کے لیے اذیت کا باعث ہوں ، جیسے کہ حدیث میں ہے: (لا ضرر ولا ضرار) یعنی اسلام میں دکھ اور نقصان پہنچانا نہیں ہے اور نہ ہی نقصان کے بدلے میں نقصان پہنچانا۔[3] سوال : عورت کا اپنے بالوں کے ساتھ بناوٹی چوٹی لگانا کیسا ہے؟ جواب : عورت کو اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال جوڑنا یا کوئی ایسی چیز جو بالوں کا شبہ دے، استعمال کرنا حرام ہے، کیونکہ اس کے دلائل ثابت ہیں ۔[4] سوال : عورت کے لیے ’’باروکہ‘‘ یعنی مستعار بالوں کا استعمال کیسا ہے؟ جواب : ’’باروکہ‘‘ حرام ہے اور وصل (یعنی) بال جوڑنے اور ملانے) کے حکم میں ہے یہ اگرچہ فی الواقع وصل نہیں ہوتا، تاہم اس سے عورت کا سرحقیقت کے خلاف بھرا بھرا نظر آتا ہے، اس لیے یہ وصل سے مشابہ ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واصلہ اور مستوصلہ عورت پر لعنت فرمائی ہے (یعنی جو جعلی بال جوڑے اور جڑوائے) ہاں اگر عورت کے سر پر بال بالکل ہی نہ ہوں اور گنجی ہو تو اس کے استعمال سے کوئی حرج نہیں تاکہ
Flag Counter