Maktaba Wahhabi

369 - 849
پڑھو۔ یہ معنی نہیں کہ قرآن پڑھ لینے کے بعد استعاذہ پڑھو۔ اسی کی مثلا یہ جملہ ہے ((اِذَا اَکَلْتَ فَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ)) ’’جب تم کھانے لگو تو بسم اللہ پڑھو۔‘‘ واحدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : فقہاء کا اجماع ہے کہ استعاذہ قراء ت سے قبل ہے۔ اعمال صالحہ میں سے قراء ت قرآن کے ارادہ کے وقت اسے استعاذہ کے ساتھ اس لیے خاص کیا تاکہ تنبیہ ہو جائے کہ سارے اعمال صالحہ جب ان کا ارادہ کیا جائے تو وہ وقت اہم ہوا کرتا ہے کیونکہ وہ قرآن کہ جس کے آگے پیچھے سے باطل حملہ آور نہیں ہو سکتا اس کی قراء ت کرتے ہوئے استعاذہ کا امر واقع ہوا ہے تو دوسرے کاموں کے ارادے کے وقت بالاولی اعوذ باللہ پڑھنا چاہیے۔ ایسے ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ خطاب کا رخ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے تو اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ دوسرے لوگوں کو تو بالاولیٰ اعوذ باللہ پڑھنی چاہیے کیونکہ آپ کے معصوم ہونے کے باوجود آپ کو شیطانی وسوسے ختم کرنے کے لیے اس کا حکم ہوا ہے تو باقی ساری امت کا کیا حال ہو گا؟ جمہور کا مذہب ہے کہ آیت میں امر یہ مندوب بتانے کے لیے ہے (یعنی یہ کام مستحب ہے)۔ [1]
Flag Counter