﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٧﴾ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴾ ’’جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقینا ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقینا ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔ ’’پس جب آپ قرآن پڑھیں تو مردود شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کریں ۔‘‘ تفسیر:… اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں : ٭ ایک یہ کہ اگرچہ تقسیم کار کی بنا پر مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے مگر اخروی اجر کے لحاظ سے دونوں کا مرتبہ یکساں ہے وہاں معیار فقط ایمان اور نیک اعمال ہوں گے اگر اس معیار کے مطابق عورت مرد سے فائق ہو گی تو اسے یقینا مردوں سے بہتر بدلہ مل سکتا ہے۔ ٭ دوسری یہ کہ ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے سے مومن کی دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت بھی۔ ٭ تیسری یہ بات کہ ایسے ایمان داروں اور نیکوکاروں کو آخرت میں جو اجر ملے گا وہ ان کے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہو گا۔ مثلاً ایک شخص نے اپنی زندگی میں چھوٹی بڑی ہر طرح کی نیکیاں کی ہیں تو اسے وہ اونچا مقام عطا کیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہو گا۔[1] دنیا میں پاک و حلال روزی، قناعت، خوش نفسی، سعادت، پاکیزگی، عبادت کا لطف، اطاعت کا مزہ، دل کی ٹھنڈک، سینے کی کشادگی سب کچھ اللہ کی طرف سے ایمان دار نیک عامل کو عطا ہوتی ہے چنانچہ مسند احمد میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اس نے فلاح حاصل کر لی جو مسلمان ہو گیا اور برابر سرابر روزی دیا گیا اورجو ملا اس پر قناعت نصیب ہوئی۔[2] پھر جب اللہ سبحانہ نے عمل صالح اور اس پر ملنے والی جزا کا ذکر کیا تو اس کے پیچھے ہی استعاذہ کا ذکر کیا کہ جس سے اعمال صالحہ شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں ۔ زجاج وغیرہ ائمہ لغت کہتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ جب تو قرآن پڑھنے کا ارادہ کرے تو استعاذہ |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |