Maktaba Wahhabi

185 - 849
بہے ہوئے خون کی طرح یہ مال ان پر حرام محض ہے۔ اگر والی مسکین محتاج ہو تو بے شک اس کے لیے جائز ہے کہ اپنی پرورش کے حق کے مطابق وقت کی حاجت اور دستور کے موجب اس مال میں سے کھا پی لے۔ اپنی حاجت اور محنت کو دیکھے۔ اگر حاجت محنت سے کم ہو تو حاجت کے مطابق لے اور اگر محنت حاجت سے کم ہو تو محنت کا بدلہ لے لے۔ پھر ایسا ولی اگر مال دار بن جائے تو اسے اس کھائے ہوئے اور لیے ہوئے مال کو واپس کرنا پڑے گا یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں : ایک تو یہ کہ واپس نہ دینا ہو گا اس لیے کہ اس نے اپنے کام کے بدلے لے لیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھیوں کے نزدیک یہی صحیح ہے۔ اس لیے کہ آیت نے بغیر بدل کے مباح قرار دیا ہے اور مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے کہا :اے اللہ کے رسول! میرے پاس مال نہیں ایک یتیم میری پرورش میں ہے۔ تو کیا میں اس کے کھانے سے کھا سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔ اس یتیم کا مال اپنے کام میں لا سکتا ہے بشرطیکہ حاجت سے زیادہ نہ اڑاؤ نہ جمع کرو اور نہ یہ ہو کہ اپنے مال کو تو بچا کر رکھو اور اس کے مال کو کھاتے چلے جاؤ۔[1] نیز نخعی عطاء، حسن اور قتادہ کا کہنا ہے: فقیر نے جو معروف طریقے سے کھایا ہے اس پر اس کی کوئی قضا نہیں ۔ جمہور فقہا نے بھی یہی بات کی ہے نیز قرآنی نظم سے بھی اس کا گہرا جوڑ نظر آتا ہے۔ فقیر کے لیے کھانا جائز ہونا اس کے بلا قرض جائز ہونے کا احساس دلاتا ہے، جبکہ معروف سے مراد لوگوں کے درمیان متعارف طریقہ ہے۔ سو ایک قوم کا کہنا ہے کہ جب (کفیل) کو اس کی ضرورت ہو گی تو وہ قرض ہو گا جب اللہ اس پر اچھا وقت لائے تو اسے وہ ادا کرنا ہو گا۔ یہ بات سیّدنا عمر بن خطاب، سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم ، شعبی، مجاہد اور اوزاعی رحمہم اللہ وغیرہ نے کی ہے۔ (بہرحال راجح پہلا قول ہی ہے۔) (ابن نواب) [2] پھر کفالت کرنے والے سے کہا جا رہا ہے جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اور تم دیکھ لو کہ ان میں تمیز آ چکی ہے تو گواہ رکھ کر ان کے مال ان کے سپرد کر دو تاکہ انکار کرنے کا وقت ہی نہ آئے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابوذر! میں تمہیں ناتواں پاتا ہوں اور جو اپنے لیے چاہتا ہوں وہی تیرے لیے پسند کرتا ہوں ۔ خبردار! ہرگز دو شخصوں کا بھی سردار، امیر نہ بننا نہ کبھی کسی یتیم کا ولی بننا۔[3]
Flag Counter