Maktaba Wahhabi

192 - 849
تحریر وصیت:… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہتا ہو تو اسے دو راتیں بھی اس حال میں نہ گزارنا چاہئیں کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔‘‘[1] آدمی کو اپنے کل مال کے 1/3(تہائی) حصے کی حد تک وصیت کرنے کا اختیار ہے۔ (دلیل کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر ۷ تا ۱۰ کی تفسیر میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی عیادت والی حدیث ملاحظہ کریں ) اور یہ وصیت کا قاعدہ اس لیے مقرر کیا گیا کہ قانون وراثت کی رُو سے جن عزیزوں کو میراث میں سے حصہ نہیں پہنچتا ان میں سے جس کو یا جس جس آدمی کو مدد کا مستحق پاتا ہے اس کے لیے اپنے اختیار تمیزی سے حصہ مقرر کر دے مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے یا کوئی بھائی یا بہن یا بھاوج یا بھتیجا یا بھانجا یا کوئی عزیز ایسا ہے جو سہارے کا محتاج نظر آتا ہے تو اس کے حق میں وصیت کے ذریعے سے حصہ مقرر کیا جا سکتا ہے اور اگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں ہے تو دوسرے مستحقین کے لیے یا کسی رفاہِ عامہ کے کام میں صرف کرنے کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کی کل ملکیت میں سے 2/3یا اس سے کچھ زائد کے متعلق شریعت نے میراث کا ضابطہ بنا دیا ہے جس میں سے شریعت کے نامزد کردہ وارثوں کو مقرر حصہ ملے گا اور 1/3یا اس سے کچھ کم کو خود اس کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ اپنے مخصوص خاندانی حالات کے اعتبار سے (جو کہ ظاہر ہے کہ ہر آدمی کے معاملے میں مختلف ہوں گے) جس طرح مناسب سمجھے تقسیم کرنے کی وصیت کر دے۔ پھر اگر کوئی شخص اپنی وصیت میں ظلم کرے یا بالفاظ دیگر اپنے اختیار تمیزی کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے یہ چارۂ کار رکھ دیا گیا ہے کہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کر لیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیت کو درست کر دے۔[2] سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کاش لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے اور وکیع کی روایت میں کثیر اور کبیر کے الفاظ ہیں ۔[3] قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر یا مرتد مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا۔[4]
Flag Counter