جواب : جب نماز کے وقت کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہو مثلاً یہ کہ صبح کی نماز پڑھنے سے پہلے سورج کے طلوع ہونے اور نماز عصر پڑھنے سے پہلے سورج کے غروب ہونے کا اندیشہ ہو تو طیارے میں نماز پڑھنا جائز ہے اگر طیارے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی جگہ ہو تو کھڑا ہو کر پڑھے اور رکوع وسجود بھی اسی طرح کرے گویا وہ زمین پر کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہے اور اگر ایسی کوئی جگہ نہ ہوتو اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے اشارے سے نماز پڑھ لے اور سجدے میں رکوع کی نسبت زیادہ سر جھکائے اور اگر نماز ایسی ہو جسے جمع کر کے پڑھا جا سکتا ہے تو ایسی نماز کو دوسری کے ساتھ جمع کر کے طیارے سے اترنے کے بعد پڑھ لے لیکن اگر یہ خدشہ ہو کہ طیارے سے اترنے سے پہلے دونوں نمازوں کا وقت ختم ہو جائے گا۔ مثلاً ظہر اور عصر کی نماز پڑھنے سے پہلے سورج غروب ہو جائے یا مغرب اور عشاء کی نمازوں کے پڑھنے سے پہلے فجر طلوع ہو جائے گی تو پھر ان نمازوں کو موخر کرنا جائز نہیں بلکہ ان کو طیارے کے اندر ہی خواہ اشارے کے ساتھ وقت پر ادا کرنا چاہیے۔[1] سوال : اگر کوئی شخص کسی شہر میں چار دن ٹھہرنے کی نیت رکھتا ہو تو کیا وہ اپنی نماز پوری پڑھے یا قصر کرے؟ جواب : چار دن کے عدد کا اقامت کی جگہ یا سفر سے کوئی تعلق نہیں ہے اقامت اور سفر کا تعلق انسان کی نیت سے اور اس کے حالات سے ہے۔ مثلاً جو کوئی کسی شہر میں تجارت وغیرہ کے لیے آیا ہو اور اسے معلوم ہے کہ اس کا یہ تجارتی کام چار دن میں مکمل ہوگا تو اس طرح وہ مقیم نہیں بن جاتا ہے کیونکہ اس کی نیت اور اس کا عزم یہاں سے کوچ کر جانا ہی ہے۔[2] سوال : نمازوں کو ان کے اوقات پر پڑھنے کی کیا اہمیت ہے؟ جواب : نمازوں کو ان کے اوقات پر پڑھنا فرض ہے قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاo﴾ (النسآء: ۱۰۳) ’’بلا شبہ نماز اہل ایمان پر وقت مقررہ پر فرض کر دی گئی ہے۔‘‘ سوال : نمازوں کے اوقات کیا ہیں ؟ جواب : عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور (اس وقت تک رہتا ہے جب تک آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر نہ ہو جائے (یعنی عصر کے وقت تک) اور نماز عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک آفتاب غروب نہ ہوجائے، نماز |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |