Maktaba Wahhabi

615 - 849
حدیث میں بیان ہوا ہے۔ ۳۔ عورت کو حیض ونفاس آنا: ان عوارض کے خاتمے پر عورت کے لیے واجب ہے کہ غسل کرے جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضُِّ قُلْ ہُوَ اَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ فِی الْمَحِیْضِ وَ لَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَo﴾ (البقرۃ: ۲۲۲) ’’اور آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجیے کہ یہ ناپاکی، لہٰذا حیض کے دنوں میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب مت جاؤ، حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائیں تو جب وہ خوب پاکیزگی حاصل کر لیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تم کو اللہ نے حکم دیا ہے۔ بلا شبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ اور احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ والی عورت کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے حیض کے ایام میں بقدر (نماز وغیرہ سے) رکی رہے پھر غسل کرے۔[1] اور نفاس والی کا بھی یہی حکم ہے اور اس پر غسل واجب ہے اور حیض و نفاس سے غسل کا طریقہ ایسے ہی ہے۔ جیسے کہ جنابت سے غسل کیا جاتا ہے۔ مگر بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر یہ بیری کے پتوں سے نہائے تو یہ مستحب ہے کیونکہ اس میں طہارت اور نظافت زیادہ ہے۔ اور کچھ علماء نے اسباب وجوب غسل میں موت کو بھی شمار کیا ہے ان کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمانا ہے جو آپ نے اپنی فوت ہو جانے والی بیٹی کے متعلق عورتوں کو دیا تھا کہ: ’’اسے غسل دو، تین یا پانچ یا سات بار یا اس سے زیادہ اگر ضرورت محسوس کرو تو۔‘‘[2] اور ایسے ہی آپ نے اس آدمی کے متعلق فرمایا تھا، جو حالت احرام میں عرفات میں اپنی اونٹنی سے گر مر گیا تھا کہ: ’’اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے اس کے ان دو ہی کپڑوں میں کفن دے دو۔‘‘[3] تو ان حضرات نے موت کو بھی اسباب غسل واجبی میں شمار کیا ہے مگر یہ وجوب زندوں سے متعلق ہے کہ وہ اس میت کو غسل دیں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ورنہ میت سے تو اعمال تکلیفیہ ختم ہو چکے۔[4]
Flag Counter