سکتی ہے وہ لوگ اگرچہ نیک اور قابل اعتماد ہی کیوں نہ ہوں ، بہرحال وہ محرم نہیں ہیں … اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خاوند کے بھائی بارے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: (اَلْحَمُو الْمَوتُ) ’’خاوند کا بھائی موت ہے۔‘‘ [1] حمو سے مراد خاوند کے بھائی (دیور، جیٹھ اور قریبی مرد) ہیں جو کہ بیوی کے لیے محرم نہیں ہیں لہٰذا مسلمان کو دین کے تحفظ اور عزت وآبرو کے لیے محتاط رہنا چاہیے۔ ثانیاً: بچے جب بالغ ہو جائیں یا ان کی عمر دس برس یا اس سے زیادہ ہو جائے تو عزت وعصمت کے تحفظ فتنہ انگیزی سے دور رہنے اور شر کے سدباب کے طور پر ان کے لیے ماں یا بہن کے ساتھ سونا جائز نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر الگ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ ((مُرُوا اَوْلَادَکُم بِالصَّلَاۃِ وَہُم أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوہُم عَلَیْہا وَہُم أَبْنَائُ عَشْرِ سِنِیْنَ وَ فَرِّقُوا بَیْنَہُم فِی الْمَضَاجِعِ۔))[2] ’’اپنے سات سال کے بچوں کو نماز کا حکم دو، دس سال کی عمر میں انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے نابالغ بچوں کو بھی ان تین اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیا ہے، جن میں بے پردہ ہونے کے امکانات ہیں اور تاکیداً ان اوقات کا نام عورات (پردہ) رکھا ہے۔[3] جبکہ بلوغت کی حد میں پہنچ جانے والوں کو ہر موقع پر اجازت لے کر ہی اندر آنے کا حکم دیا ہے فرمایا: ﴿وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ﴾ (النور: ۵۹) ’’اور جب تم میں سے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی اسی طرح اجازت مانگ کر آنا چاہیے جس طرح ان کے بڑے لوگ اجازت لیتے رہے۔‘‘ باقی رہے دس سال سے کم عمر کے بچے تو وہ اپنی ماں یا بہن کے ساتھ سو سکتے ہیں ایک تو اس لیے کہ انہیں بھی نگرانی کی ضرورت ہے دوسرے یہاں فتنے کا کوئی امکان نہیں اگر فتنہ وفساد کا خوف نہ ہو تو تمام بالغوں سمیت سب لوگ الگ الگ بستروں میں ایک ہی کمرے کے اندر سو سکتے ہیں ۔ وصلی اللہ علی نبیّنا محمد واٰلہ وصحبہ وسلم۔[4] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |