Maktaba Wahhabi

794 - 849
فِیْہِ وَاخْلُفْہٗ فِی عَقِبِہِ فِی الْغَابِرِیْنَ وَاغْفِرلَنَا وَلَہٗ یَا رَبَّ الْعَالَمِین۔))[1] ’’اے اللہ! فلاں کو بخش دے اور ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند کر دے اس کی قبر کو فراخ کر دے اس کے لیے اس میں روشنی کر دے اور اس کے پچھلوں میں اس کا نائب بن جا ہمیں اور اسے اے رب العالمین بخش دے۔‘‘ پھر اس کے جبڑوں پر مضبوط پٹی باندھ دے، نرمی سے اس کے جوڑ سہلا دے، اسے زمین سے اونچا اٹھا دے، اس کے کپڑے اتار دے اور ایسے کپڑے سے اسے ڈھانپ دے جو اس کے سارے بدن کو چھپا لے پھر اسے غسل دے۔ ۲۔ میت کے قرض کی ادائیگی میں جلدی کرنا، اس کی وصیت کا نفاذ، اس کی جلدی تیاری، اس کا جنازہ پڑھنا اور جس شہر میں وہ فوت ہوا ہے، اسے اسی شہر میں دفن کرنا مسنون ہے، حاضرین وغیرہ کے لیے میت کا چہرہ ننگا کرنا، اسے بوسہ دینا اور اس پر رونا جائز ہے۔ ٭… میت کی جانب سے اللہ کے حقوق ادا کرنا بھی واجب ہے اگرچہ وہ زکاۃ، نذر، کفارہ اور اسلامی حج ہی کیوں نہ ہوں ۔ انہیں ترکہ میں وارثوں کے حق اور قرضے سے پہلے ادا کیا جائے گا، اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کا حق ادا ہو جب تک مومن کا قرض ادا نہیں کر دیا جاتا تب تک اس کا نفس معلق رہتا ہے۔ ٭… عورت کے لیے درست ہے کہ اپنے بچے یا کسی اور کی وفات پر تین دن تک سوگ منا لے اور خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ منا سکتی ہے جبکہ روز قیامت بیوی آخری شوہر کو ملے گی۔ (یعنی جس کے نکاح میں فوت ہوئی ہو گی۔) ٭… میت کے اقرباء وغیرہ پر حرام ہے کہ وہ مرنے والے پر نوحہ کریں اور یہ نوحہ رونے سے آگے جو افعال سر انجام دئیے جاتے ہیں اس کا نام ہے۔ مرنے والے کو اس پر کیے جانے والے نوحے کی وجہ سے قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی مصیبت کے وقت رخسار پیٹنا گریبان پھاڑنا سر منڈوانا، بال بکھیر لینا سب حرام ہے۔ ٭… لوگوں کو مرنے والے کی موت کی اطلاع دینا جائز ہے تاکہ وہ جنازے اور اس کی نماز میں شریک ہو سکیں نیز خبر دینے والے کے لیے مستحب ہے کہ لوگوں سے کہے کہ اس کے لیے استغفار کریں ، جبکہ نعی حرام ہے، نعی ہوتی ہے فاخرانہ انداز میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرنے والے کی وفات کی اطلاع کرنا۔
Flag Counter