Maktaba Wahhabi

779 - 849
ہوتی ہے اور اس سے دعوت دین کا کام یا اصلاح احوال کا کام پیچھے جا پڑتا ہے۔ اورشیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ تمہاری آپس میں منافرت، ضد اور دشمنی پیدا ہو اور دعوت و تبلیغ کا کام رک جائے لہٰذا خطاب کے وقت خصوصی احتیاط کرو اور تم غصے میں آگئے یا تلخ لہجہ یا سخت الفاظ کہنا شروع کر دئیے تو سمجھ لو کہ تم شیطان کی چال میں آگئے اس لیے اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کے بتوں یا معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر ضد میں آکر جوابی کارروائی کے طور پر اللہ کو بھرا بھلا کہنے لگیں ۔ (۶/ ۱۰۸) لہجہ اگر کرخت ہوگا تو بات سمجھ آجانے کے باوجود مخالف ضد کر سکتا ہے اسی لیے جب موسیٰ وہارون علیہما السلام کے فرعون کی طرف دعوت کے لیے بھیجا گیا تو انہیں حکم دیا گیا: ﴿فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰیo﴾ (طٰہٰ: ۴۴) ’’تو تم دونوں نرم بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کر لے یا ڈر جائے۔‘‘ اور اس سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دعوت دینے والی کو پر امید ہونا چاہیے اگر داعیہ نا امید ہوگی تو دعوت اپنا اثر کھو دے گی۔ سوال : ایک داعیہ کو دعوت دین کی کیسی تڑپ ہونی چاہیے؟ جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے رحیم وشفیق اور مہربان تھے کہ انہیں یہ روگ کھائے جا رہا تھا کہ لوگ جہنم کی طرف بھاگ بھاگ کر کیوں جا رہے ہیں یہ اسلام کیوں نہیں قبول کر لیتے، سیدھے راستے پر گامزن کیوں نہیں ہو جاتے، اسی روگ سے آپ اندر اندر گھلے جا رہے تھے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: ﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًاo﴾ (الکہف: ۶) ’’پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کر لینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔‘‘ اور بخاری ومسلم میں ایک حدیث ہے، آپ فرماتے ہیں : میں تمہیں پیچھے سے پکڑ پکڑ کر روک رہا ہوں جبکہ تم دھکے سے جہنم میں بڑھ رہے ہو۔ چنانچہ ایک دین کی دعوت دینے والی خاتون کے سینے میں بھی دعوت دین کا ایسا درد ہونا چاہیے اور بہنوں کو جہنم سے بچانے کی تڑپ ہونی چاہیے۔ سوال : ایک مصلح کو دعوت اصلاح کہاں سے شروع کرنی چاہیے؟ جواب : اپنے گھر سے، کیونکہ اسماعیل علیہ السلام کے متعلق اللہ عزوجل فرماتے ہیں : ﴿وَ کَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِo﴾ (مریم: ۵۵)
Flag Counter