آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع فرما دیا، اس نے دوسری بار پھر تیسری بار پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً یہ حدیث ارشاد فرمائی۔ سوال : کیا عورت کی کمزوری کے باعث اس کا رحم نکالنا جائز ہے؟ جواب : کسی انتہائی مجبوری کی بناء پر ایسا کرنا جائز ہے کہ جب اس کے بغیر کوئی دوسرا حل ہی نظر نہ آئے، عام حالات میں یہ جائز نہیں جیسے آج کل ہمارے ہاں لوگ منصوبہ بندی کی غرض سے کرتے ہیں بعض اوقات بچہ دانی پھٹ جاتی ہے یا مسلسل اسقاط حمل کی وجہ سے عورت کی جان کو خطرہ ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔ دیگر علماء کی طرح موجودہ دور کے مفتی اعظم سعودی عرب فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے بھی اس کی تائید کی ہے اور جواز میں فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ کسی مجبوری کے بغیر یہ جائز نہیں کیونکہ دین میں کثرت اولاد کو پسند فرمایا گیا ہے بلکہ مطلوب ومقصود قرار دیا گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تَزَوَّجُوْا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَإِنِّی مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْاُمَمَ۔))[1] ’’بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو۔ (روز قیامت) میں دیگر امتوں پر تمہاری (کثرت) کی بنا پر فخرکروں گا۔‘‘ سوال : کیا جسمانی نقص کی و جہ سے اسقاط حمل جائز ہے؟ جواب : حمل قرار پانے کے بعد اگر ڈاکٹر کو کسی ذریعہ سے پتہ چل جائے کہ بچہ جسمانی نقص والا یا بدصورت ہو سکتا ہے تو محض ان چیزوں پر اعتماد کرتے ہوئے حمل گرایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی یہ جائز ہے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہیے کیونکہ ڈاکٹر حضرات بعض اوقات کئی قسم کے گمان ظاہر کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انہیں غلط ثابت کر دیتا ہے اور بچہ بالکل صحیح سلامت پیدا ہوتا ہے اگر ڈاکٹر کے تجربے کے مطابق بچہ ناقص اعضا یا بدصورت بھی پیدا ہو جائے تو پھر بھی صبر وتحمل کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کرنی چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ کرنے والی اسی کی ذات ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۵۵) ’’اور یقینا ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔‘‘ |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |