نیز بخاری شریف میں تین بندوں والا مشہور واقعہ ملتا ہے کہ جو ایک غار میں بند ہوگئے تھے پھر انہوں نے اپنے نیک اعمال کا حوالہ دے کر دعا کی تو غار کھل گئی اور وہ نجات پا گئے۔ (ج)…کسی زندہ بزرگ کی دعا کو وسیلہ بنانا، جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی تھی: یا اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے پیغمبر کا وسیلہ لایا کرتے تھے تو تو پانی برساتا تھا، اب اپنے پیغمبر کے چچا کا وسیلہ لائے ہیں ، ہم پر بارش برسا، راوی کہتا ہے پھر بارش ہو جاتی۔[1] سوال : ناجائز وسیلہ کون سا ہے؟ جواب : ناجائز توسل کی بھی متعدد قسمیں ہیں جو حسب ذیل ہیں : اس لیے کہ مردہ دعا پر قدرت نہیں رکھتا جیسا کہ وہ زندگی میں رکھتا ہے لہٰذا مردوں سے سفارش طلب کرنا بھی جائز نہیں ہے اس لیے کہ سیّدنا عمر بن خطاب، سیّدنا معاویہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خشک سالی کے موقعوں پر استسقاء کے لیے سفارش اور وسیلہ کے لیے انہی حضرات کے پاس گئے جو اس وقت زندہ تھے جیسے سیّدنا، عباس، سیّدنا یزید بن الاسود رضی اللہ عنہما دیگر لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روضہ اطہر کے پاس یا روضہ اطہر کے باہر استسقاء کی درخواست نہیں کی بلکہ دوسری زندہ ہستی کی خدمت میں گئے جیسے سیّدنا عباس، زید رضی اللہ عنہما دیگر ایسے ہی ایک موقع پر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تھی (جو پچھلے سوال میں مذکور ہوئی ہے)۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسا بھی کر سکتے تھے کہ آپ کے روضہ اطہر کے پاس آتے اور آپ کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرنا ہوتا کرتے لیکن چونکہ یہ جائز نہیں تھا اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا نہیں کیا۔ اس سلسلہ میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے، وہ یوں ہے: ((إِذَا سَأَلْتُمْ اللّٰہَ فَاسْئَلُوہٗ بِجَاہِی فَاِنَّ جَاہِی عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیم۔)) ’’جب تم اللہ سے کچھ مانگو تو میری جاہ وعزت کے وسیلے سے مانگو اس لیے کہ میری جاہ ومنزلت اللہ کے نزدیک بہت زیادہ ہے۔‘‘ یہ حدیث سراسر جھوٹ ہے اور موضوع ہے، معتبر کتب حدیث میں نہیں ملتی اور نہ کسی محدث اور عالم دین نے اسے حدیث کہا ہے لہٰذا اس کی بنیاد پر کوئی عمل جائز نہیں ہے اس لیے کہ عبادات کے اثبات کے لیے قرآن وحدیث میں کسی صریح دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔[2] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |