Maktaba Wahhabi

629 - 849
تیسری یہ کہ لڑائی وغیرہ میں کسی کو کافر سمجھ کر قتل کر دیا جائے۔ چوتھی صورت جو آج کل عام ہے کہ کوئی ٹریفک حادثے میں مارا جائے۔ قتل خطا کے احکام یا اس کے کفارے کی صورتیں یہ ہیں : ۱۔ اگر مقتول کے وارث مسلمان ہیں تو ایک غلام مومن (خواہ مرد ہو یا عورت) آزاد کرنا ہوگا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی ادا کرنا ہوگا جو کہ سو اونٹ یا ان کی قیمت ہے۔ اور اگر قاتل آزاد کرنے کے لیے غلام نہیں پاتا تو مسلسل دو ماہ کے روزے بھی رکھے گا۔ ۲۔ اگر مقتول تو مومن ہو مگر دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا کفارہ صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا ہے، اور اگر وہ میسر نہ آئے تو دو ماہ کے مسلسل روزے۔ ۳۔ اور مومن مقتول کا تعلق کسی معاہدہ قوم سے ہو تو اس کے وہی احکام ہیں جو پہلی صورت کے ہیں ۔[1] سوال : کسی کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنے کی کیا سزا ہے؟ جواب : قرآن اس کو نہایت بھیانک جرم قرار دیتا ہے قرآن میں اس کی تفصیل پڑھ کر ایک مومن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًاo﴾ (النسآء: ۹۳) ’’اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور اللہ کا اس پر غضب ہے اور اس کی لعنت ہے اور اس نے اس کے لیے عظیم عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ اسی طرح اس فعل بد کی وعید میں نہایت صریح احادیث ملتی ہیں ، ارشاد نبوی ہے: ’’روز قیامت سب سے پہلے خون کا فیصلہ ہوگا۔‘‘[2] ابوداود میں ہے ایماندار نیکیوں اور بھلائیوں میں بڑھتا رہتا ہے جب تک کہ خون ناحق نہ کر لے اگر ایسا کر لیا تو تباہ ہو جاتا ہے۔[3] دوسری حدیث میں ہے: ’’ساری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کم درجے کا ہے۔[4]
Flag Counter