لیے اسلام نے جو شرائط عائد کی ہیں وہ پوری کی گئی ہوں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ رجسٹرار کے دفتر میں منعقد ہونے والی شادی میں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ بشرطیکہ شادی کرنے والے جوڑے نے وہ شرائط پوری کر دی ہوں جو اسلام کے مطابق شادی کے لیے ضروری ہیں ، یہ شرائط نہایت سادہ ہیں ، لڑکی کے والد یا سرپرست کی موجودگی اور کم سے کم دو گواہوں کی شہادت۔ اگر نکاح کا عمل اور ایجاب و قبول ان افراد کی موجودگی میں ہوا ہے تو یہ شادی درست ہے خواہ مہر کی رقم کا تعین کیا گیا ہو یا نہیں ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی کے معاملے میں پہلا نکتہ ایجاب و قبول کا ہے، ایجاب لڑکی کی طرف سے ہوتا ہے اور بالعموم لڑکی کے والد، سرپرست یا ان کا کوئی نمائندہ (وکیل) یہ اعلان کرتا ہے کہ اسلامی شریعت کے مطابق اس شادی کے لیے لڑکی رضا مند ہے اس ایجاب کے بعد دولہا، یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نے اسلامی شریعت کے مطابق لڑکی کو اپنے نکاح میں قبول کیا ہے اگر یہ تمام عمل دو گواہوں کی موجودگی میں ہوا ہے تو نکاح جائز ہے۔ اگر شادی کا یہ معاہدہ رجسٹرار کے دفتر میں ہوتا ہے، تب رجسٹرار یا اس کا نائب اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ ایجاب و قبول کا عمل درست طریقے پر ہوا ہے ممکن ہے کہ اس کے لیے حکومت نے چند اضافی ضابطے ضروری قرار دئیے ہوں اگر ایسا ہوا تو ان ضابطوں کو پورا کرنا ہوگا۔ بشرطیکہ یہ ضابطے اسلامی شریعت کے خلاف نہ ہوں اس قسم کے ضابطے صرف ریکارڈ کی درستی اور دفتری کارروائی کی تکمیل کے لیے ہوتے ہیں ۔ بعض ممالک میں سول میرج کے لیے لڑکی کے والد یا سرپرست کی موجودگی ضروری نہیں ہوتی۔ یہ طریقہ اسلام کے قانون کے خلاف ہے کیونکہ اس معاملے میں اسلام کے احکامات نہایت واضح ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی بھی شادی عمل میں نہ لائی جا سکتی ہے جب تک لڑکی کے سرپرست اور دو گواہ موجود نہ ہوں ۔ بصورت دیگر شادی جائز نہیں ہوگی ایک اور حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی عورت کسی دوسری عورت کی شادی کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ کوئی عورت خود شادی کر سکتی ہے ان احادیث کی روشنی میں شادی کے لیے لڑکی کے سرپرست کی موجودگی ضروری ہے اس بارے میں تمام فقہاء کی رائے ایک ہے سوائے امام ابوحنیفہ کے۔ امام ابوحنیفہ اس معاملے کو دوسری طرح دیکھتے ہیں ان کی نظر میں شادی کا معاہدہ اسی طرح کا روباری معاہدہ ہے جو عورت اپنے طور پر آزادانہ انجام دے سکتی ہے اس لیے ایک اسلامی عدالت کسی ایسی شادی کو جائز قرار دے سکتی ہے جس میں عورت نے اپنی نمائندگی خود کی ہو اور یہ شادی غیر مسلم ملک میں انجام پائی ہو۔ لیکن یہ صرف معاملات کو سلجھانے اور شادی کے رشتے کو محفوظ رکھنے کے لیے ہوگا۔ اسلامی عدالت کسی مسلمان |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |