معاشرتی حیثیت سے معیوب ہونا قابل اعتراض ہونا ایک ایسی چیز ہے جس پر قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام معاشرے متفق رہے ہیں اور اس میں بجز ان متفرق لوگوں کے جنہوں نے اپنی عقل کو اپنی نفس پرستی کے تابع کر دیا یا جنہوں نے خبطی پن کی اپچ کو فلسفہ طرازی سمجھ رکھا ہے کسی نے آج تک اختلاف نہیں کیا ہے اس عالم گیر اتفاق رائے کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے نوع انسانی کی بقا اور انسانی تمدن کا قیام دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھر الگ ہو جانے میں آزاد نہ ہوں بلکہ ہر جوڑے کا باہمی تعلق ایک ایسے مستقل اور پائیدار عہد وفا پر استوار ہو جو معاشرے میں معلوم ومعروف بھی ہو اور جسے معاشرے کی ضمانت بھی حاصل ہو اس کے بغیر انسانی نسل ایک دن بھی نہیں چل سکتی کیونکہ انسان کا بچہ اپنی زندگی اور اپنی انسانی نشوونما کے لیے کئی برس کی دردمندانہ نگہداشت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور تنہا عورت اس بار کو اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو سکتی، جب تک کہ وہ مرد اس کا ساتھ نہ دے جو اس کے بچے کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہو اسی طرح اس معاہدے کے بغیر انسانی تمدن بھی برقرار نہیں رہ سکتا کیونکہ تمدن کی تو پیدائش ہی ایک مرد اور ایک عورت کے مل کر رہتے ایک گھر اور ایک خاندان وجود میں لانے اور پھر خاندانوں کے درمیان رشتے اور رابطے پیدا ہونے سے ہوئی ہے اگر عورت اور مرد گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف ولذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں تو سارے انسان بکھر کر رہ جائیں ، اجتماعی زندگی کی جڑ کٹ جائے اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے جس پر تہذیب و تمدن کی یہ عمارت اٹھی ہے ان وجوہ سے عورت اور مرد کا ایسا آزادانہ تعلق جو کسی معلوم ومعروف اور کسی مسلم عہد وفا پر مبنی نہ ہو انسانی فطرت کے خلاف ہے انہی وجوہ سے انسان اس کو ہر زمانے میں ایک سخت عیب ایک بڑی بداخلاقی اور مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ سمجھتا رہا ہے اور انہی وجوہ سے ہر زمانے میں انسانی معاشروں نے نکاح کی ترویج کے ساتھ ساتھ زنا کے سد باب کی بھی ضرور کوشش کی ہے، البتہ اس کوشش کی شکلوں میں مختلف قوانین اور اخلاقی تمدنی اور مذہبی نظاموں میں فرق رہا ہے جس کی بنیاد دراصل اس فرق پر ہے کہ نوع اور تمدن کے لیے زنا کے نقصان دہ ہونے کا شعور کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ کہیں واضح ہے اور کہیں دوسرے مسائل سے الجھ کر رہ گیا ہے۔ زنا کی حرمت پر متفق ہونے کے بعد اختلاف جس امر میں ہوا ہے وہ اس کے جرم یعنی قانوناً مستلزم سزا ہونے کا مسئلہ ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور دوسرے مذاہب اور قوانین کا اختلاف شروع ہوتا ہے انسانی فطرت سے قریب جو معاشرے رہے ہیں انہوں نے ہمیشہ زنا یعنی مرد اور عورت کے ناجائز تعلق کو بجائے خود ایک جرم سمجھا ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں رکھی ہیں لیکن جوں جوں انسانی معاشروں کو تمدن |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |