پھر اس قصے سے قرآن حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کراتا ہے … یوسف علیہ السلام کے بھائی جب انہیں کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا ہے مگر فی الواقع انہوں نے یوسف کو اس بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لا کھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انہیں ندامت و شرم ساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا عزیز مصر کی بیوی یوسف کو قید خانے بھجوا کر اپنے نزدیک تو ان سے انتقام لے رہی تھی مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تخت سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے خود اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرمانروائے ملک کی مربیہ کہلانے کی بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اٹھانا پڑی۔ یہ محض دو چار مستثنیٰ واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے ساری دنیا مل کر بھی اسے نہیں گرا سکتی۔ اس حقیقت حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر دونوں میں ان حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانون الٰہی میں اس کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہو گا اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیر کرے گا وہ آخرت میں یقینا رسوا ہو گا ہی، دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے۔ دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملنا ہے۔ جو لوگ حق و صداقت کے لیے سعی کر ہے ہوں اور دنیا انہیں مٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انہیں اس سے غیر معمولی تسکین حاصل ہو گی اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوف ناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعاً ہراساں نہ ہوں گے بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دئیے چلے جائیں گے۔ مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرد مؤمن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کر سکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے ۱۷ برس کی عمر، تن تنہا، بے سرو ساماں ، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بنا کر بیچے گئے ہیں ۔ تاریخ کے اس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگا کر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ جس کی میعاد سزا بھی کوئی نہ تھی۔ اس حالت تک گرا |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |