۲۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ دو ہٹے کٹے آدمی آئے اور صدقہ کا سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ پھر نظر نیچی کر لی اور فرمایا: ’’اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ میں غنی اور قوی کا کوئی حصہ نہیں ۔ جو کما سکتا ہو۔‘‘[1] ج… جو افراد کسی کے زیر کفالت ہوں وہ انہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتا مثلاً بیوی اور اولاد کو۔ اسی طرح باپ اگر بوڑھا ہو چکا ہے اور اس کی کفالت اس بیٹے کے ذمے ہو تو بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں صاحب مال ہوں اورمیرا والد محتاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے اولاد ہی تمہاری پاکیزہ کمائی ہوتی ہے اور اپنی اولاد کی کمائی سے تم کھا سکتے ہو۔[2] اس لحاظ سے عورت اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے کیونکہ خاوند بیوی کے زیر کفالت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے: سیّدنا زینب رضی اللہ عنہا (زوجہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں ۔ وہاں ایک اور انصاری عورت کو آپ کے دروازے پر پایا وہ بھی وہی مسئلہ پوچھنے آئی تھی جو میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ نکلے ہم نے ان سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کریں کہ اگر میں اپنے خاوند اور چند یتیموں کو جو میری پرورش میں ہیں خیرات کر دوں تو کیا یہ درست ہے؟ ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ بلال نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دو عورتیں یہ مسئلہ پوچھ رہی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کون سی عورتیں ؟ بلال نے کہا زینب نامی ہیں ۔ آپ نے پوچھا کون سی زینب؟ بلال نے کہا عبداللہ بن مسعود کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، یہ صدقہ درست ہے اور اس کے لیے دوہرا اجر ہے ایک قرابت کا دوسرے صدقہ کا۔[3] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |