موجود ہے اور اس کی ایک بہن بھی زندہ ہے تو آدھا حصہ خاوند کو آدھا بہن کو مل جائے گا اور اگر بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو پھر عول کے طریقہ پر کل جائیداد کے چھ کے بجائے سات حصے کر کے تین حصے خاوند کو اور چار حصے بہنوں کو مل جائیں گے اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو حسب قاعدہ ﴿لِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ آدھی میراث ان میں تقسیم ہو گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر پہلی صورت ہو، یعنی کلالہ عورت کا خاوند بھی نہ ہو یا مرد کی بیوی بھی نہ ہو اور اس کی صرف ایک بہن ہو تو آدھا تو اس کو مل گیا باقی آدھا کسے ملے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ آدھا رد کے طور پر بہن کو بھی دیا جا سکتا ہے اور ذوی الارحام (یعنی ایسے رشتے دار جو ذوی الفروض ہوں اور نہ عصبہ) یعنی دور کے رشتہ داروں مثلاً ماموں پھوپھی وغیرہ یا ان کی اولاد موجود ہو تو انہیں ملے گا اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو بقایا آدھا حصہ بیت المال میں جمع کروایا جا سکتا ہے اور ایسے حالات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں ۔[1] |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |