سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے پوچھا جانتے ہو ’’نش‘‘ کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں ۔ تو کہنے لگیں : نش سے مراد نصف ہے اور یہ کل ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی یا پانچ سو درہم ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیویوں کے لیے یہی حق مہر تھا۔[1] اسی سلسلے میں دوسری روایت اس طرح ہے کہ ابو العجفاء کہتے ہیں : ایک دفعہ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے کے دوران لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو عورتوں کے حق مہر بڑھ چڑھ کر نہ باندھا کرو کیونکہ اگر بڑھانا دنیا میں کوئی عزت کی بات ہوتی یا اللہ کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے اور میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی یا اپنی کسی بیٹی کا حق مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ باندھا ہو۔[2] ہم ان دونوں روایتوں میں سے مسلم میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کے مطابق ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی (ایک اوقیہ: ۴۰ درہم) یا ۵۰۰ درہم والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ درہم چاندی کا ایک سکہ تھا جس کا وزن ۳ ماشے 1/1/5رتی۔ اس حساب سے131/1/4تولے چاندی ہوئی اور اگر موجودہ حساب سے ۱۰۰۰ روپیہ فی تولہ تصور کیا جائے تو یہ آج کل ۱۳۱۲۵۰ روپے پاکستانی بنتے ہیں ۔ قرآن مجید نے حق مہر کو مرد کی مالی حیثیت سے مشروط کیا ہے۔ اگر ہم ازواج مطہرات کے مختلف حق مہروں کا حساب لگائیں تو سیّدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا حق مہر ۴۰۰۰ درہم یا ۴۰۰ دینار تھے۔ سیّدہ خدیجہ کا حق مہر ۲۰ اونٹ تھا۔ جبکہ دیگر ازواج مطہرات کا اوسط حق مہر ۵۰۰ درہم یا ۵۰ دینار تھا۔ (واضح رہے کہ درہم چاندی کا اور دینار سونے کا سکہ تھا۔ ایک دینار دس درہم کے مساوی تھا۔[3] اگر ۵۰۰ درہم چاندی کا حساب لگایا جائے تو یہ ہمارے حساب سے 131/1/4تولے بنتی ہے۔ اگر ۱۰۰۰ روپے تولہ چاندی (موجودہ نرخ) ہو تو یہ قیمت ۱۳۱۲۵۰ روپے پاکستانی بنتی ہے اور اگر ۵۰ دینار کا حساب لگایا جائے تو یہ موجودہ ۵۰۔۲۱۲ گرام سونا بنتا ہے۔ اس حساب سے اس رقم کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مختلف مہروں میں سے کوئی اپنی مالی حیثیت کے مطابق اختیار کیا جا سکتا ہے۔ (یہاں چاندی کی موجودہ قیمت کے مطابق تفسیر میں تھوڑی سی تبدیلی کی گئی ہے)۔ اب اسی سے متعلق ایک تیسری روایت ملاحظہ فرمائیے: جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے یہ خطاب فرما رہے تھے تو ایک عورت پکار اٹھی (کیونکہ یہ بات عورتوں کے حقوق سے تعلق رکھتی تھی) کہ ’’آپ یہ پابندی کیسے لگا |
Book Name | تفسیر النساء |
Writer | الشیخ ابن نواب |
Publisher | دار المعرفۃ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 850 |
Introduction |