Maktaba Wahhabi

176 - 849
کہ اگر ایک گوالے نے بیس بھینسیں پال رکھی ہیں تو بھینسا فقط ایک ہی ہوتا ہے کیا کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی گوالے نے بھینسے تو بیس رکھے ہوں اور بھینس صرف ایک ہی ہو خود ہی غور فرما لیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ویسا کیوں نہیں ہوتا؟ بات دراصل یہ ہے کہ مرد تو اپنی جوانی کے ایام میں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت مستعد ہوتا ہے مگر عورت کی ہرگز یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ ہر ماہ حیض کے ایام میں اسے اس فعل سے طبعاً نفرت ہوتی ہے۔ پھر مرد تو صحبت کے کام سے دو تین منٹ میں فارغ ہو جاتا ہے اور اس سے آگے اولاد کی پیدائش میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا جبکہ عورت کو حمل قرار پا جائے تو پورے ایام حمل میں پھر اس کے بعد رضاعت کے ایام میں بھی وہ طبعاً اس فعل کی طرف راغب نہیں ہوتی البتہ اپنے خاوند کی محبت اور اصرار کی وجہ سے اس کام پر آمادہ ہو جائے تو اور بات ہے اور بسا اوقات عورت انکار کر بھی دیتی ہے لیکن مرد اتنی مدت صبر نہیں کر سکتا۔ اب اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو ایک اور نکاح کرے یا پھر فحاشی کی طرف مائل ہو اور اسلام نے پہلی صورت کو ہی اختیار کیا ہے۔ پھر مرد اگر چار بیویاں بھی رکھ لے تو اس سے نہ نسب میں اختلاط پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی میراث کے مسائل میں کوئی الجھن پیش آتی ہے جبکہ عورت اگر دو مردوں سے بھی اختلاط رکھے تو اس سے نسب بھی مشکوک ہو جاتا ہے کیونکہ نسب کا تعلق مرد سے ہے عورت سے نہیں اور میراث کے مسائل میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اب ان باتوں کو درخورِاعتناء نہ سمجھیے اور صرف اس بات پر غور کیجیے کہ اگر عورت کو چار شوہروں کی اجازت دی جائے تو وہ رہے گی کس کے گھر میں اور کون اس کے نان و نفقے اور اس کی اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار بنے گا؟ پھر کیا ایک شوہر یہ برداشت کرے گا کہ اس کی بیوی علی الاعلان دوسرے کسی کے پاس بھی جاتی رہے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ آپ شریعت کو بالائے طاق رکھ دیجیے اور چار شوہروں والی بات کا تجربہ کر کے دیکھیے کہ اس سے کس طرح ایک معاشرہ چند سالوں میں تباہ و برباد ہو جاتا ہے کوئی اسلام سے انکار کرتا ہے تو کرے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شرعی احکام انسانی مصالح پر ہی مبنی ہوتے ہیں ۔ اب اس مسئلے پر ایک اور پہلو سے غور فرمائیے اس حقیقت سے تو سب لوگ آگاہ ہیں کہ جوانی کے ایام میں ہر شخص میں شہوانی جذبات اپنی انتہا کو پہنچے ہوتے ہیں اور پھر نوجوان اور تندرست مرد اس قابل ہوتا ہے کہ کم از کم ایک دن میں ایک بار جماع کرے تب بھی اس کی صحت خراب نہ ہو اور اگر جذبہ شہوانی کو طویل عرصہ تک دبا کر رکھا جائے تو اس سے انسان کے بیمار پڑ جانے کا خدشہ ہوتا ہے ان حالات میں انسان کے سامنے تین ہی راستے ہوتے ہیں :
Flag Counter