Maktaba Wahhabi

146 - 849
درمیان فرق کیا جائے (یعنی کسی کو مانا جائے اور کسی کو نہ مانا جائے) اور جو (اجزاء ایمان) یہاں مذکور نہیں بلکہ دوسری جگہ مذکور ہیں وہ ہیں روزِ آخرت پر ایمان اور اس بات پر ایمان کہ ہر طرح کی بھلائی اور برائی اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور یہ سب اشیاء ایسی ہیں جن کا ادراک حواس خمسہ سے ناممکن ہے اور وہ انسان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں ، ان میں سے کتابیں اور رسول انسانوں کو نظر تو آتے ہیں لیکن اس کے یقین کا انسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ فلاں کتاب فی الواقع اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور فلاں رسول واقعی ہی اللہ کا رسول ہے۔ یہ یقین اسی صورت حاصل ہو سکتا ہے جب پہلے اللہ اور اس کے فرشتوں پر ایمان لایا جائے۔ اللہ کی جانب سے جب فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر رسول پر نازل ہوتا ہے تو سب سے پہلے رسول اپنی رسالت پر اور اللہ کی طرف سے ملے ہوئے احکام پر ایمان لاتا ہے اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے … پھر اس کے بعد رسول دوسرے لوگوں کو اپنی رسالت پر ایمان لانے اور منزل من اللہ احکام بجا لانے کی دعوت دیتا ہے۔[1] پھر فرمایا:’’ اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا یہ اس کا لطف و کرم اور احسان و انعام ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کھٹکا ہوا تھا ان پر جو یہ فرمان گراں گزرا تھا کہ دل کے خطرات پر بھی حساب لیا جائے گا وہ دھڑکا اس آیت سے اٹھ گیا مطلب یہ ہے کہ گو سوال ہو یا حساب ہو لیکن جو چیز طاقت سے باہر ہے اس پر عذاب نہیں کیونکہ دل میں کسی کا خیال دفعۃً آ جانا روکے رک نہیں سکتا۔ بلکہ اپنی اپنی کرنی اپنی اپنی بھرنی۔ اعمال صالحہ کرو گے جزا پاؤ گے برے اعمال کرو گے تو سزا بھگتو گے۔‘‘[2] آگے یہ فرمان ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ یعنی ان دو باتوں (خطا و نسیان) سے تعلق رکھنے والا کوئی گناہ بھی ہم سے صادر ہو جائے۔ ہمارا اس پر مؤاخذہ نہ کرنا، اس دعا نے مفسرین وغیرہ کی ایک جماعت کو بڑا مشکل میں ڈالا ہے۔ ان کا کہنا ہے: خطا و نسیان دونوں کو بخشا جا چکا۔ ان کا مواخذہ تو ہو گا نہیں تو اس کی دعا کرنے کا کیا معنی۔ یہ تو تحصیل حاصل کی قبیل سے ہے۔ تو انہیں بایں طور جواب دیا گیا ہے کہ اس سے مراد ہے کہ کوتاہی و بے پروائی جیسے وہ اسباب جو نسیان اور خطا تک لے جاتے ہیں ، چنانچہ ان سے ان اسباب کے صدور پر مواخذہ نہ کرنا نہ کہ خود اس نسیان و خطا پر عدم مواخذہ مراد ہو، ان کا مواخذہ تو ہو گا ہی نہیں جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بتاتا ہے: ((رُفِعَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأُ وَ النِّسْیَانُ)) [3] ’’میری امت سے بھول چوک کو اٹھا لیا گیا ہے۔‘‘
Flag Counter