Maktaba Wahhabi

115 - 849
’’اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں ۔‘‘ جمہور نے اسی مذہب کو اختیار کیا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیعہ اسلمیہ کو اجازت دی تھی کہ وضع حمل کے بعد شادی کر سکتی ہے۔[1] آیت کا ظاہر بتاتا ہے کہ چھوٹی، بڑی، آزاد و غلام، حائضہ یا مایوس (جسے حیض آنا بند ہو گیا ہے) کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے (سبھی کی یہی عدت ہے)۔ [2] ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اس سے مجامعت نہیں کی تھی نہ مہر مقرر ہوا تھا کہ اس کا انتقال ہو گیا۔ فرمائیے اس کی نسبت کیا فتویٰ ہے؟ جب کئی مرتبہ ان کا آنا جانا ہوا تو آپ نے فرمایا: میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں اگر ٹھیک ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانو اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی جانب سے سمجھو، اللہ اور رسول اس سے بری ہیں ۔میرا فتویٰ یہ ہے کہ عورت کو پورا مہر ملے گا جو اس کے خاندان کا دستور ہو اس میں کمی بیشی نہ ہو اور اس عورت کو پوری عدت گزارنی چاہیے۔ یہ سن کر معقل بن یسار اشجعی کھڑے ہو کر فرمانے لگے بروع بنت واشق کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ یہ سن کر عبداللہ رضی اللہ عنہ بڑے خوش ہوئے۔[3] ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ہمیں کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے سے منع کر دیا گیا۔ بجز خاوند کے جس پر چار ماہ دس دن سوگ منانے کا حکم تھا اور حکم یہ تھا کہ ان دنوں ہم نہ سرمہ لگائیں اور نہ خوشبو، نہ ہی رنگے ہوئے کپڑے پہنیں الا یہ کہ ان کی بناوٹ ہی رنگین دھاگے کی ہو۔ البتہ یہ اجازت تھی کہ ہم میں سے جب کوئی حیض سے پاک ہو اور غسل کرے تو کست الاظفار (ایک قسم کی خوشبو) لگائے۔ نیز ہمیں جنازے کے ساتھ جانے سے بھی منع کر دیا گیا تھا۔[4] نیز ائمہ اربعہ وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ زمانہ عدت میں عورت کو اسی گھر میں رہنا چاہیے جہاں اس کے شوہر نے وفات پائی ہو۔ دن کے وقت کسی ضرورت سے وہ باہر جا سکتی ہے مگر قیام اس کا اسی گھر میں ہونا چاہیے۔[5]
Flag Counter