وہ واپس جانے کے لیے مڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم اذان سنتے ہو؟‘‘
اس نے عرض کیا، جی ہاں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’پھر نماز کے لیے ضرور مسجد ہی آؤ۔‘‘[1]
شریعت میں دو عذر نمایاں طور پر بیان ہوتے ہیں جن کے پیش نظر جماعت کو چھوڑا جاسکتا ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
٭ کھانے کی شدید حاجت اور کھانا سامنے آجائے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جب رات کا کھانا پک کر سامنے آجائے اور جماعت کھڑی ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کرو۔‘‘[2]
٭ قضاء حاجت محسوس ہو تو نماز سے پہلے فارغ ہو لینا چاہیے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت کی ضرورت محسوس کرے تو اسے چاہیے کہ نماز سے پہلے قضاء حاجت کرے۔‘‘[3]
گھر میں ایک کمرہ کو نماز کے لیے مخصوص کرنا
سوال :بعض اوقات گھر کے ایک کمرہ کو نماز کے لیے مخصوص کر لیا جاتا ہے، اسی طرح اپنی زرعی زمین میں کوئی خطہ نماز کے لیے مقرر کر دیا جاتا ہے، کیا ایسی مساجد کے وہی احکام ہیں جو شرعی مساجد کے ہوتے ہیں؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب: مساجد تین طرح کی ہوتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تمام روئے زمین کو مسجد قرار دیا ہے۔ مسافر آدمی کو جس مقام پر نماز پڑھنے کی فرصت ملے وہیں نماز پڑھ لے۔ اس طرح کی مساجد عام مساجد کے حکم میں نہیں ہیں۔ دوسری مساجد وہ ہیں جو گھر کے کسی کو نے میں یا کسی کمرہ میں نماز پڑھی جاتی ہے اور اسے نماز کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے گھر کے ایک حصہ کو مسجد قرار دے دیا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ آپ وہاں نماز پڑھیں تاکہ ہم وہاں آئندہ نماز پڑھا کریں۔[4]
اس طرح کی مساجد کے لیے عام مساجد کے احکام نہیں ہوتے۔ تیسری وہ مساجد ہیں جو فی سبیل اللہ وقف ہوتی ہیں اور وہاں اذان اور جماعت کا اہتمام ہوتا ہے۔ ایسی مساجد کے لیے شرعی مساجد کے احکام نافذ ہوں گے۔ سوال میں مذکور گھر کی مسجد کے لیے شرعی مساجد کے احکام نہیں ہیں۔ کیوں کہ تمام مساجد کسی کی ملکیت نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان کی خرید و فروخت کی جا سکتی ہے۔ ان میں وراثت بھی جاری نہیں ہوتی، بحالت جنابت و حیض ایسی مساجد میں آمد و رفت بھی منع ہے جبکہ گھر کی یا
|