اپنی رقم قومی بچت سکیم میں رکھنا
سوال: میں پچھلے سال سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا ہوں، میرا کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں، میں نے حکومت سے یکمشت ملنے والی رقم کو مرکزی قومی بچت میں رکھ دیا ہے، وہاں سے مجھے ہر ماہ ’’منافع‘‘ ملتا ہے ، جس سے میرا گزر اوقات ہو جاتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو اس امر کا پابند ٹھہرایا ہے کہ وہ گزر اوقات کے لیے رزق حلال کا اہتمام کرے اور حرام روزی سے اپنے دامن کو بچا کر رکھے۔ قرب قیامت کے وقت ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ انسان روزی کے متعلق لا پروا ہو جائے گا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’لوگوں پر ایسا وقت ضرور آئے گا کہ انسان اپنی روزی کے متعلق حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرے گا۔‘‘[1]
اس حدیث کی روشنی میں جب ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ کی اکثریت نے اپنی روزی کے متعلق حلال و حرام کی تمیز چھوڑ دی ہے۔
صورت مسؤلہ میں بھی یہی کچھ کار فرما ہے کہ سائل نے گزر اوقات کے لیے اپنی رقم کو مرکزی قومی بچت میں رکھ دیا ہے اور اس سے ملنے والے ’’منافع‘‘ سے گزر بسر کرتا ہے۔ حالانکہ قومی بچت اسکیم سے اسے جو کچھ ’’منافع‘‘ کی صورت میں ملتا ہے وہ شرعاً سود ہے اور اس کا لینا ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ نام کے بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی، سود کا لینا اور اسے استعمال میں لانا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِه﴾[2]
’’اگر تم سود لینے سے باز نہ آئے تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔‘‘
سود لینے دینے کے متعلق احادیث میں بہت سخت وعید آئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو ملعون قرار دیا ہے جو سود دیتا اور وصول کرتا ہے۔ لہٰذا ہم سائل کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے سرمایہ سے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر لے، وہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرتے کرتے اور سود کھاتے پیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے۔
ہمارے رجحان کے مطابق مرکز قومی بچت یا کسی بھی دوسرے بینک سے سود جائز نہیں خواہ وہ اسے منافع کا نام ہی کیوں نہ دے دیں، اس سے ایک مسلمان کو گریز کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا زبردست اندیشہ ہے۔ واللہ اعلم!
|