کے بعد اس نے مسلمان ہونے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَ لَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ﴾[1]
’’مومن عورتیں، کافروں کے لیے حلال نہیں ہیں، اور نہ ہی یہ کافر لوگ اہل ایمان خواتین کے لیے حلال ہیں۔‘‘
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْ﴾[2]
’’اپنی عورتوں کو اہل شرک کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ مومن غلام، مشرک آزاد سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
ہاں اگر وہ مسلمان ہو جائے اور اپنے آپ کو اچھا مسلمان ثابت کر دے، تو ایسے شخص سے شادی کرنا جائز ہے۔ اس کے اسلام کی جانچ پڑتال ضرور کی جائے، مباد ا وہ شادی کے لیے اسلام کو بطور حیلہ استعمال کرے اور مقصد حاصل کر لینے کے بعد دوبارہ مرتد ہو جائے۔ بہرحال اہل اسلام خواتین، کفار و مشرکین سے نکاح نہیں کر سکتیں، البتہ دعوت اسلام دی جائے، اگر وہ مسلمان ہو جائیں اور پکا پکا مسلمان ہونے کا ثبوت دے دیں تو ان سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
طلاق کی نیت سے نکاح کرنا
سوال: ایک آدمی بیرون ملک رہتا ہے اور شرمگاہ کے تحفظ کے لیے کسی عورت سے نکاح کرتا ہے، جب اس کا بیرون ملک کام مکمل ہو جاتا ہے تو اپنی منکوحہ کو طلاق دے کر فارغ کر دیتا ہے، کیا اس طرح کا نکاح جائز ہے؟
جواب: نکا ح کے مقاصد میں سے بڑا مقصد یہ ہے کہ عورت کو ہمیشہ اپنے گھر آباد رکھا جائے، لیکن اگر نکاح کرتے وقت ہی یہ نیت ہو کہ مقصد پوراہونے کے بعد اسے فارغ کر دیا جائے گا تو ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اس قسم کے نکاح کی دو صورتیں ہیں:
۱۔ نکاح کے وقت ہی شرط لگا لی جائے کہ میں نے اپنا کام مکمل ہونے کے بعد طلاق دے دینی ہے او ر یہ نکاح مشروط ہے، اس قسم کا نکاح، نکاح متعہ ہے۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر نکاح متعہ سے منع کر دیاتھا۔‘‘[3]
۲۔ نکاح کے وقت شرط کا اظہار نہ کیا، اسے اپنے دل میں پوشیدہ رکھا جائے، ایسا کرنا بھی حرام اور ناجائز ہے کیوں کہ نیت میں مخفی بات بھی مشروط کردہ کی طرح ہے۔ حدیث میں ہے: ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘[4]
اس قسم کا نکاح اس بناء پر حرام ہے کہ اس میں بیوی اور اس کے خاندان کو دھوکہ دیا جاتا ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
|