عملی تربیت سے آپ کو تمام جزئیات سے آگاہ فرمایا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز عصر کا وقت ایک مثل کے بعد شروع ہوتا اور دو مثل تک ختم ہو جاتا ہے۔ نیز اس حدیث سے نماز عصر کے اول وقت اور آخری وقت کی تحدید بھی ہو جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں اوقات میں ادا کی گئی نماز صحیح ہے اور اس طرح دونوں اوقات کا درمیانی وقت نماز کا وقت ہے۔ یوں ہر نماز کے لیے تین اوقات کا اثبات ہوا لیکن ان میں افضل وقت کونسا ہے؟ وہ دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے ہاں عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول بھی یہی تھا کہ آپ نماز کو اول وقت میں ادا فرماتے تھے۔ اس بناء پر نماز عصر کا اول وقت ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہونے پر ہے لیکن نئے نظام الاوقات میں نماز عصر سایہ دو مثل ہونے تک ادا کی جائے گی۔ ایسا کرنا احادیث کے خلاف ہے۔ ہم اہل حدیث حضرات کو رواداری کے نام پر مداہنت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’کسی اہل علم سے اس میں مخالفت منقول نہیں (نماز عصر کا وقت ایک مثل ہونے پر ہے) سوائے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ان کے مشہور قول کے مطابق عصر کا اول وقت ہر شئے کا سایہ دو مثل ہونے پر ہوتا ہے۔‘‘ امام قرطبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ
’’اس موقف میں سب لوگ ان کے مخالف ہیں یہاں تک کہ ان کے شاگرد بھی یعنی جو ان سے بلاواسطہ اخذ کرنے والے ہیں۔‘‘[1]
امام ابویوسف اور امام محمد; کے نزدیک بلکہ ایک روایت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نماز عصر کا وقت یہ ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو جائے۔[2] واللہ اعلم
نماز قصر کی علت اور حکمت
سوال :آج کل جب ہم سفر کرتے ہیں تو آرام دہ ذرائع سفر میسر ہونے کی بناء پر ہمیں سفر کا احساس نہیں ہوتا۔ سفر انتہائی آرام دہ اور جلدی طے ہو جاتا ہے، کیا ایسے حالات میں بھی نماز قصر کی جا سکتی ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب: قرآن کریم میں نماز قصر کی وجہ سفر کو ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ﴾[3]
’’اور جب تم سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر تم نماز میں اختصار کر دو۔‘‘
احادیث میں مسافت کی تعیین بھی کی گئی ہے جو نماز قصر کا باعث ہے۔
چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد خاص جناب یحییٰ بن یزید نے آپ سے نماز قصر کے لیے مسافت کے متعلق سوال کیا تو
|