دوسرے کا وارث نہیں بنایا جائے گا بلکہ ان کے جو زندہ ورثاء ہیں انہیں ان کا وارث قرار دیا جائے گا۔ [1] واللہ اعلم!
ترکہ میں بھائی کا حصہ
سوال: میری بہن زچگی کے دوران فوت ہو گئی، پسماندگان میں اس کی بیٹی، خاوند، والدہ اور ہم دو بھائی ہیں، اس کے خاوند نے میری بہن کی تمام جائیداد پر قبضہ کر رکھا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے بھائیوں کا کوئی حصہ نہیں، اس کی وضاحت فرمائیں؟
جواب: مرنے کے بعد میت کے مال و اسباب اور جائیداد کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا﴾[2]
’’مردوں کے لیے اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اس طرح عورتوں کے لیے بھی اس مال سے حصہ ہے جووالدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے۔‘‘
اس آیت کے مطابق مرنے والے کی جائیداد کم ہو یا زیادہ، منقولہ ہو یا غیر منقولہ بہرحال وہ قابل تقسیم ہے۔ اسی طرح کسی رشتہ دار کا حصہ زیادہ ہو یا تھوڑا؟ اسے بہرحال ملنا چاہیے۔ اسے دینے سے پہلے ہی دباؤ ڈال کر معاف کرانا غلط رسم ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، صورت مسؤلہ میں عورت دوران زچگی فوت ہوئی ہے، اس کا سامان جہیز، زیورات، حق مہر اور فرنیچر وغیرہ قابل تقسیم ہے۔ سوا ل کے مطابق شرعی ورثاء چار ہیں، ان کے حصص کی تفصیل درج ذیل ہے:
٭ خاوند کو ¼ملے گا کیوں کہ میت کی اولاد موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ﴾[3]
’’بیویوں کی اگر اولاد ہے تو تمہارا (خاوند کا) چوتھا حصہ ہے۔‘‘
٭ والدہ کو چھٹا حصہ ملے گا کیوں کہ میت کی اولاد موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ﴾[4]
’’والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے بشرطیکہ میت کی اولاد ہو۔‘‘
٭ بیٹی کو ترکہ سے نصف دیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ﴾[5]
|