لیتا اور اپنے گھر لوٹ آتا تھا۔ ایک دن اس نے اجازت لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے ہتھیار لگا کر جاؤ، مجھے تم پر قریظہ کے حملے کا خطرہ ہے۔ اس نوجوان نے اپنے ہتھیار لیے اور گھر روانہ ہوا، جب گھر آیا تو اس کی بیوی دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ اس نے نیزے سے اپنے بیوی کو مارنے کی کوشش کی، کیوں کہ اسے غیرت نے آ لیا تھا۔ بیوی نے کہا پہلے گھر میں داخل ہو کر تو دیکھو کہ مجھے کس چیز نے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے کمرے میں گیا تو وہاں ایک بہت بڑا سانپ تھا جو بستر پر کنڈلی مارے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ نیزہ لے کر سانپ کی طرف بڑھا اور سانپ کو اس میں پرو دیا، پھر اس نے گھر کے صحن میں نیزے کو سانپ کے سمیت گاڑ دیا، اس دوران سانپ تڑپ کر اس کے اوپر آ گرا پھر پتہ نہ چلا کہ دونوں میں سے پہلے کون مرا، سانپ یا وہ نوجوان۔‘‘ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مدینہ میں کچھ جن تھے جو اسلام لے آئے تھے جب تم ان کی طرف سے کوئی بات دیکھو تو تین دن تک انہیں خبردار کرو، اگر اس کے بعد بھی وہ نظر آئیں تو انہیں مار دو کیوں کہ وہ اسلام نہ لانے والا شیطان ہے۔‘‘[1]
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نوجوان نے گھر سے نکلنے والے سانپ کو وارننگ دئیے بغیر نشانہ بنایا تھا، اس لیے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ممکن ہے کہ سوال میں ذکر کردہ نوجوان کے بے ہوش ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسے جنوں نے زدو کوب کیا ہو اور ایسی ضربیں لگائی ہوں جن سے اس کے چہرے اور پشت پر سیاہ نشان پڑ گئے ہوں۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے موقع پر جلدی کرنے کی بجائے شرعی ہدایات کو مدنظر رکھا کریں جو پہلے بیان ہو چکی ہیں۔ واللہ اعلم!
لفظ ’’مولوی‘‘ یا ’’مولانا‘‘ کا استعمال
سوال: ہمارے ہاں عالم دین کو ’’مولوی‘‘ یا ’’مولانا‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ کچھ اہل علم اسے شرک سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ صحیح مسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں، پھر قرون اولیٰ کے علماء سے یہ لقب منسوب نہیں اور نہ ہی اہل عرب علماء کے لیے یہ لقب استعمال ہوتا ہے، اس کے استعمال کی شرعی حیثیت بیان کریں۔
جواب: عزت واحترام کے پیش نظر علماء حضرات کے لیے لفظ ’’مولوی‘‘ یا ’’مولانا‘‘ استعمال کیا جاتا ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے، سیدنا جبریل علیہ السلام اور نیک مسلمانوں کے لیے اسے استعمال کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِيْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ١ ﴾[2]
’’یقیناً اللہ تعالیٰ سیدنا جبریل اور تمام صالح اہل ایمان آپ کے مولیٰ ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے، سیدنا جبریل عليہ السلام اور خواص اہل ایمان کے لیے یہ لفظ استعمال کیا ہے، اس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے لیے لفظ مولیٰ کا استعمال شرک نہیں۔
|