رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’اپنی صفوں کو درست کرو، اللہ کی قسم! میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ شگافوں سے صف میں گھس آتا ہے۔‘‘[1]
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ہم دوران نماز صف بندی کا اہتمام کریں اور اس کے متعلق غفلت سے کام نہ لیں۔ واللہ اعلم
اقامت کے بعد نوافل پڑھنا
سوال :ایک نمازی، سنتیں یا نوافل پڑھ رہا ہے، اس دوران فرض نماز کی اقامت ہو جاتی ہے تو کیا نماز نفل توڑ کر امام کے ساتھ شامل ہوجانا چاہیے یا وہ اپنی نماز مکمل کر کے نماز باجماعت میں شریک ہو؟ وضاحت کریں۔
جواب: اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ نماز باجماعت کھڑی ہو جاتی ہے، اس کے باوجود کچھ نمازی سنتیں پڑھتے رہتے ہیں، ایسا کرنا شرعاً درست نہیں۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جب فرض نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی دوسری نماز نہیں ہوتی۔‘‘[2]
اگرچہ کچھ اہل علم بایں طور نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اگر نمازی نے ایک رکعت پڑھ لی ہے، اس دوران اقامت ہو جاتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ خفیف انداز میں اپنی دوسری رکعت ادا کر کے امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور اگر وہ پہلی رکعت میں ہے تو اسے نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے۔
ہمارے رجحان کے مطابق یہ موقف محل نظر ہے، کیوں کہ درج بالا حدیث کی اس سے خلاف ورزی ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کے مطابق نمازی انسان کو چاہیے کہ وہ فرض نماز کو اہمیت دے اور وہ اپنی نفل نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے۔ البتہ آخری تشہد اور سجدہ میں اقامت ہو جائے تو ایسی حالت میں جماعت کے ساتھ کوئی رکعت فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس صورت میں نفل نماز پوری کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ بہرحال نمازی کو چاہیے کہ وہ فرض نماز کو اہمیت دے اور فرض نماز کی اقامت ہونے کے بعد نوافل یا سنت کو ختم کر کے فرض نماز میں شمولیت کر لے۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ اسے نوافل کے ثواب سے بھی محروم نہیں کرے گا۔ واللہ اعلم
صبح کی سنتوں کے بعد لیٹنا
سوال :صبح کی سنتوں کے بعد دائیں کروٹ لیٹنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ایسا کرنا ضروری ہے؟ نیز اس دوران میں دعائے نور پڑھی جاتی ہے، کتاب وسنت میں اس دعا کا پڑھنا ثابت ہے؟ تفصیل سے اس مسئلہ کے متعلق وضاحت فرمادیں۔
جواب: صبح کی دو سنت کے بعد لیٹنے کے متعلق ہمارے ہاں افراط و تفریط پایا جاتا ہے، بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ سنتوں کے بعد دائیں کروٹ لیٹنا ضروری ہے اور صحت نماز کے لیے شرط ہے جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف ہے۔[3] جبکہ امام
|