جمہور علماء امت نے دوسری صورت کو اختیار کیا ہے کہ ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ اور ’’حی علی الفلاح‘‘ پر ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ پڑھا جائے اور باقی کلمات مؤذن کی طرح کہے جائیں۔ صحیح بخاری میں موجود بیان سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے پہلے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو بیان کیا ہے جس میں اجمال ہے، پھر اس کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث لائے ہیں جس میں تفصیل ہے تاکہ اس کے ذریعے پہلی روایت کے اجمال کو کھولا جائے۔ چنانچہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں پوری تفصیل موجود ہے۔[1]
ہمارے رجحان کے مطابق ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ اور ’’حی علی الفلاح‘‘ کے موقع پر ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ پڑھا جائے اور باقی کلمات مؤذن کی اذان کے مطابق کہے جائیں۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ نماز ہی کا کہا جا رہا ہے کہ ’’اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنی ظاہری اور باطنی توجہ کے ساتھ راہ راست یعنی نماز کی طرف چلے آؤ اور قیامت کے دن کی نعمتوں کے حصول کی کامیابی کی طرف آؤ۔ تو مناسب معلوم ہوا کہ اس کا جواب بایں طور پر دیا جائے کہ کمزور، ناتواں ہونے کی وجہ سے اس کے متعلق اپنے اندر طاقت نہیں پاتا، ہاں! اگر اللہ تعالیٰ مجھے برائی سے بچنے اور نیکی کی طرف آنے کی توفیق دے تو اور بات ہے۔‘‘[2]
اذان کے جوابی کلمات کو اگر صدق دل سے کہا جائے تو ایسا شخص یقیناً جنت میں داخل ہوگا جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ واللہ اعلم
نماز باجماعت کی فضیلت
سوال :نماز باجماعت کی فضیلت مختلف احادیث میں مختلف انداز سے بیان ہوئی ہے، بعض میں ستائیس درجے اور کچھ احادیث میں پچیس درجے زیادہ کا بیان ہے۔ آخر احادیث میں اس قسم کا اختلاف کیوں ہوتا ہے؟ پھر نماز باجماعت کی فضیلت کس بنیاد پر ہے؟ قرآن وحدیث میں اس قدر فضیلت اور پھر اس فضیلت میں تفاوت کی کیا وجوہات بیان ہوئی ہیں؟
جواب: جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں چیزوں کے خواص واثرات میں درجات کا فرق ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی قدر و قیمت اور افادیت میں بھی فرق ہو جاتا ہے، اسی طرح ہمارے اعمال میں بھی درجات کا تفاوت ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک نماز باجماعت کی ادائیگی بھی ہے، اس کی فضیلت بایں الفاظ بیان کی گئی ہے: ’’نماز باجماعت، اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘[3]
اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز باجماعت کی پابندی کرنے والے کو ستائیس گنا زیادہ اجر ملتا ہے۔ اب صاحب ایمان کا مقام یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے اس پر دل و جان سے یقین رکھتے ہوئے ہر وقت کی نماز جماعت ہی سے
|