٭ میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی۔
٭ میت کی طرف سے حج بدل کرنا۔
٭ گھر والوں کو قرآن وحدیث کا پیرو بنانا۔
٭ والدین کے دوست واحباب کی عزت اور ان کے ر شتے داروں سے صلہ رحمی کرنا۔ یہ ہیں وہ چند امور جو ایصال ثواب کے لیے کارگر ہو سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا ہونے کا عقیدہ
سوال :ہمارے ہاں اکثریت کا عقیدہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا ہیں اور مصائب کے وقت وہ کسی کی مدد کر سکتے ہیں، اس قسم کے عقیدہ کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے؟
جواب: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق مشکل کشاء ہونے کا عقیدہ رکھنا ایک مشرکانہ عقیدہ ہے کیوں کہ مشکل کشا ہونے کی خصوصیت صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ وَ اِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِه﴾[1]
’’اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے علاوہ کوئی دوسرا اسے دور نہیں کر سکتا اور اگر وہ آپ کو کوئی بھلائی دینا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔‘‘
یہ آیت کریمہ اور قرآن کریم کی متعدد دوسری آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی دوسرا مشکل کشا یا حاجت روا نہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشکل کشا ہونے کا عقیدہ رکھنا مذکورہ آیت کے خلاف ہے پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا اور وہ اپنے قتل کے منصوبے کو اپنی زندگی میں ناکام نہ کر سکے، وفات پانے کے بعد وہ کیسے مشکل کشا بن سکتے ہیں؟
یاد رہے! کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ہی ایک قوم آپ کو اپنا پروردگار اور خالق ورازق مانتی تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ تین دن تک بلا کر انہیں توبہ کرنے اور اپنے مشرکانہ عقیدے سے رجوع کرنے کی تلقین کرتے رہے، جب وہ اپنے اس عقیدے سے باز نہ آئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں آگ کی خندق میں ڈال کر جلا دیا تھا۔[2]
اس بات کی تاریخ بھی گواہی دیتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی زندگی میں کئی قسم کی مشکلات میں گھرے رہے اور وہ اپنے مصائب کو دور نہ کر سکے تو فوت ہونے کے بعد دوسروں کی مشکلات کیوں کر دور کر سکتے ہیں؟ مشکل کشا اور حاجت روا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوْٓءَ ﴾[3]
|