ایک، ایک حصہ بیٹیوں کو دے دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ﴾[1]
’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق تاکیدی حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو۔‘‘
شادی شدہ بیٹی کو جو ایک حصہ ملا ہے، وہ آگے اس کے بیٹے اور خاوند کو دے دیا جائے، کیوں کہ جب یہ فوت ہوئی تھی تو اپنے باپ کی جائیداد سے حق دار بن چکی تھی۔ اب اس کے حصے کو اس کے شرعی ورثاء میں تقسیم کر دیا جائے، شرعی ورثاء اس کا بیٹا اور خاوند ہے۔ واضح رہے کہ مرنے والے کی جائیداد کو شرعی ضابطے کے مطابق فوراً تقسیم کر دیناچاہیے تاکہ بعد میں اٹھنے والے فتنوں سے بچا جا سکے۔ بصورت دیگر بہت سے فتنے کھڑے ہو جاتے ہیں جو ورثاء کی پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ واللہ اعلم!
باپ اور بیٹے کی حادثاتی موت
سوال: میرے دادا جان اور والد محترم گاڑی میں سفر کر رہے تھے، سامنے سے آنے والا ٹرک گاڑی سے ٹکرا گیا، اس حادثہ میں دونوں فوت ہو گئے، واضح رہے کہ والد محترم، میرے دادا جان کے اکلوتے بیٹے تھے اور ہم دو بھائی ہیں۔ جائیداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟
جواب: پہلے تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حادثہ میں فوت ہونے والے دونوں بزرگوں کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے۔ شریعت کے مطابق ایک سے زیادہ رشتہ دار کسی حادثہ مثلاً آگ لگنے، پانی میں ڈوبنے یا زلزلہ کی وجہ سے مکان گرنے میں اکٹھے فوت ہو جائیں اور یہ علم نہ ہو سکے کہ ان میں سے پہلے کون فوت ہوا ہے اور بعد میں کون مرا ہے تو ایسے اجتماعی حادثہ میں فوت ہونے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔ بلکہ ان کے زندہ ورثاء، متروکہ جائیداد کے حق دار ہوں گے۔
صورت مسؤلہ میں باپ اور بیٹا دونوں ایک ہی حادثہ میں فوت ہوئے ہیں، ان میں سے کسی کی موت کے متعلق تقدیم و تاخیر کا علم نہیں، ایسے حالات میں باپ بیٹے کا وراث نہیں ہو گا، اور نہ ہی بیٹے کو باپ کی جائیداد کا حق دار قرار دیا جائے گا۔ بلکہ فوت ہونے والے کی جائیداد کے زندہ دونوں بھائی وراث ہوں گے۔ یعنی فوت ہونے والے باپ بیٹے کی جائیداد کو ملا کر اس کے دو حصے کیے جائیں گے پھر ایک حصہ ایک بھائی کو اور دوسرا حصہ دوسرے بھائی کو دے دیا جائے گا۔
جس طرح سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو جنگ یمامہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے طاعون عمواس میں فوت ہونے والوں کے متعلق حکم دیا کہ ’’زندہ وارثوں کو فوت شدگان کا وارث بنایا جائے اور فوت ہونے والوں کو ایک دوسرے کا وارث نہ بنایاجائے۔‘‘[2]
امام مالک رحمہ اللہ نے جنگ جمل، جنگ صفین اور حرہ کے دن قتل ہونے والوں کے متعلق یہی فتویٰ دیا تھا کہ انہیں ایک
|