۲۔ اس کا نام رکھا جائے۔
۳۔ اس کے ختنے کیے جائیں۔
۴۔ اس کا سر منڈوایا جائے اور بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی جائے۔
اگر کسی کا عقیقہ بوجہ غربت نہیں کرنا تو اس کا نام پہلے دن بھی رکھا جا سکتا ہے، افضل عمل یہی ہے کہ بچے کا نام ساتویں دن رکھا جائے لیکن اگر اس سے پہلے یا بعد میں نام رکھنا ہے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ واللہ اعلم!
عقیقہ اور والدہ کی وفات
سوال: اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوبصورت بیٹا عطا فرمایا، ہم نے عقیقہ کے لیے جانور بھی خرید لیے تھے، لیکن ساتویں دن گھر میں والدہ کی وفات ہو گئی، ظاہر ہے کہ وفات کے دن کسی کو بچے کا عقیقہ کرنے کا ہوش کب ہوتا ہے۔ ہم نے عقیقہ مؤخر کر دیا۔ کیا یہ عمل کتاب و سنت کے مطابق ہے؟
جواب: بچے کے عقیقہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے لہٰذا ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے۔[1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کا وقت نومولود کی پیدائش کا ساتواں دن ہے، اس سے پہلے عقیقہ مشروع نہیں، چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں:
’’اس حدیث کے مطابق اہل علم کا عمل یہ ہے کہ وہ ساتویں روز بچے کی طرف سے عقیقے کے جانور کو ذبح کرنا مستحب خیال کرتے ہیں۔‘‘[2]
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں: ’’ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ سنت کے مطابق ساتویں دن عقیقہ کا جانور ذبح کیا جائے۔[3] چونکہ گھر میں عقیقے کے دن والدہ کی وفات ہو گئی ہے، لہٰذا اس دن عقیقہ کرنے پر دل آمادہ نہیں ہوتا۔
ہمارے رحجان کے مطابق بہتر یہی ہے کہ جانور ذبح کر کے گوشت تقسیم کر دیا جائے اور اللہ کی تقدیر پر خود کو راضی کر لیا جائے، لیکن اس کے باوجود دین کی بنیاد آسانی پر ہے اور قرآن میں ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾[4]
’’تم اللہ سے ڈرو جتنی بھی تم میں طاقت ہے۔‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو حسب طاقت اس پر عمل کرو۔‘‘[5]
|