کیوں کہ اس سے درج ذیل مفاسد جنم لیتے ہیں۔
٭ قرآن کریم کو ایک حقیر دنیوی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ قرآن کریم ایک انقلابی کتاب ہے اور اس سے عملی طور پر معاشرہ میں صالح انقلاب مقصود ہے، جبکہ موبائل میں انہیں داخل کرنا اس عظیم مقصد کے برعکس ہے۔
٭ بعض اوقات آیات کو سننے کے بجائے انہیں درمیان میں ہی قطع کرنا پڑتا ہے جو کہ قرآن کریم کی انتہائی بے ادبی ہے۔
٭ بعض اوقات انسان لیٹرین میں ہوتا ہے کہ اچانک موبائل میں قرآنی آیات نشر ہونا شروع ہو جاتی ہیں جو کہ قرآنی ادب و احترام کے منافی ہے
٭ ہمارے اسلاف قرآن کریم کو دنیاوی اغراض و مقاصد کے لیے انتہائی ناپسند کرتے تھے۔
اس لیے ہمارے رحجان کے مطابق اپنے موبائل میں سادہ گھنٹی کی آواز ہی سیٹ کر لی جائے اور قرآنی آیات کے داخل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
گھٹی دینے والے کے کردار کا اثر
سوال: جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے کسی نیک اور بزرگ آدمی سے گھٹی دلوائی جاتی ہے۔ کیا گھٹی دینے والے کے کردار کا اثر بچے پر ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے بچہ بھی نیک سیرت اور اچھے چال چلن کا حامل ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب: بچے کی پیدائش کے بعد اسے گھٹی دینا ایک مستحب عمل ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ کھجور وغیرہ لے کر کوئی صالح آدمی اسے اپنے منہ میں چبا کر پھر اسے نومولود کے تالو پر لگا دے۔ اس سے مراد برکت کا حصول ہوتا ہے اور اس سے نیک فال بھی لی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بچے کو نیک سیرت اور خوش اخلاق بنا دے۔
چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو میں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور کے ساتھ گھٹی دی۔
نیز اس کے لیے خیر وبرکت کی دعا فرمائی، پھر اسے میرے حوالے کر دیا۔[1]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو بھی کھجور کی گھٹی دی تھی اور اس کے لیے خود برکت کی دعا فرمائی تھی۔[2]
ان احادیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ گھٹی دینے والا نیک او ر صالح انسان ہونا چاہیے تاکہ وہ بچے کی خیر و برکت کی دعا کرے۔ اس سے یہ نیک شگون بھی لی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بچے کو بزرگ کی طرح نیک اور اچھے کردار کا حامل بنا دے۔ لیکن احادیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ گھٹی دینے سے نومولود کی عادات اس بزرگ جیسی بن جاتی ہیں جس سے اسے
|