کسی کے ساتھ اس طرح دھوکا کرے۔ حدیث میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کے لیے دھوکہ بازی حرام ہے۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص کو اکثر خرید و فروخت کے وقت دھوکہ دیا جاتا تھا، اس نے آپ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا:
’’جب تم کسی سے معاملہ کرو تو کہہ دیا کرو کہ دھوکہ نہیں ہوگا، چنانچہ وہ شخص معاملہ کرتے وقت یہ الفاظ کہہ دیتا تھا۔‘‘[2]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
’’خرید و فروخت میں فریب کاری اور دھوکہ دہی ناجائز ہے۔‘‘[3]
لہٰذا ایک مسلمان کو ایسے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے جن کے ارتکاب سے اس کا ایمان مجروح ہوتا ہو۔ واللہ اعلم!
نگرانِ وقف کے اخراجات
سوال: دورِ حاضر کے مدارس اسلامیہ اور مراکز دینیہ وقف ہی کی ایک شکل ہیں، ان کے جو نگران ہیں، وہ کس حد تک اس وقفی جائیداد سے اپنی ضروریات پوری کر سکتے ہیں؟ کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ وضاحت کریں۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس اسلامیہ اس ملک و ملت کی نظریاتی حدود کے نگران اور محافظ ہیں، ان کی آبیاری میں ہمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، ان کے ناظمین حضرات کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں کہ وہ مادی دور میں ان کی پاسبانی پر لگے ہوئے ہیں، ان پر بہت سخت ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی نگرانی و حفاظت کے متعلق کوتاہی کا شکار نہ ہوں، ان حضرات کی ضروریات کے متعلق بھی کتاب و سنت میں واضح ہدایات ہیں۔
جیسا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’میری قوم جانتی ہے کہ میرا کاروبار، میرے اہل خانہ کے اخراجات کے لیے کافی تھا، اب میں مسلمانوں کے معاملات کے حوالے میں مشغول کر دیا گیا ہوں، لہٰذا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ اس بیت المال سے کھائیں گے اور مسلمانوں کے لیے کام کریں گے۔‘‘[4]
اس کا مطلب یہ ہے کہ مدارس کے ناظمین، اپنی ضروریات، فراہم شدہ چندہ سے پوری کر سکتے ہیں۔ ضروریات کی مزید تشریح ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو ہمارا عامل ہو، وہ بیوی حاصل کر لے اگر اس کا کوئی خدمت گزار نہیں تو وہ خادم لے لے اور اگر اس کے پاس رہائش نہیں تو وہ رہائش لے لے اور جو کوئی اس کے علاوہ لے تو وہ خائن ہے یا چور۔‘‘[5]
|