اس روایت سے معلوم ہوا کہ ذبیح سیدنا اسماعیل علیہ السلام تھے۔ واللہ اعلم
احرام کی پابندیاں کب تک؟
سوال: جس انسان نے حج کرنا ہے اس پر احرام کی وجہ سے کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں، وہ پابندیاں کب شروع ہوتی ہیں اور کب ختم ہوتی ہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں ہمیں اس کی تفصیل سے آگاہ فرمائیں کیوں کہ امسال ہمارا حج کرنے کا پروگرام ہے۔
جواب: احرام کی پابندیوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں، تو جو شخص ان مہینوں میں حج کا عزم کرے اسے چاہیے کہ حج کے دوران نہ جنسی چھیڑ چھاڑ کرے، نہ بد کرداری اور نہ ہی لڑائی جھگڑا۔‘‘
یکم شوال سے دس ذوالحجہ تک کی مدت کا نام ’’اشھر حج‘‘ ہے۔ حج کا احرام اسی مدت کے اندر اندر باندھا جاتا ہے۔ احرام صرف دو چادریں اوڑھ لینے کا نام نہیں بلکہ حج کی نیت کرنے سے انسان محرم بنتا ہے۔ یعنی جب بھی احرام باندھ کر حج کی نیت کرے گا اس پر احرام کی پابندیاں لاگو ہو جائیں گی۔ احرام کی یہ پابندیاں دوران حج عائد رہتی ہیں تا آنکہ وہ دسویں ذوالحجہ کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں نہ مار لے۔ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی (دسویں تاریخ کو) جمرہ عقبہ کی رمی کرے تو اس کے لیے بیویوں کے سوا ہر چیز حلال ہو جاتی ہے۔‘‘[1]
اگرچہ اس حدیث کے صحت و ضعف کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے تاہم دیگر احادیث کی روشنی میں یہ مسئلہ اسی طرح ثابت ہے کہ دسویں ذوالحجہ کو رمی کے بعد حاجی کے لیے بیوی کے علاوہ دیگر ممنوعات حلال ہو جاتی ہیں۔ اسے شرعی اصطلاح میں ’’حلت صغری‘‘ کہا جاتا ہے۔ طواف افاضہ کے بعد بیوی سے بھی مباشرت ہو سکتی ہے اور اسے ’’حلت کبریٰ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن حلت کبریٰ کی شرط ہے کہ حاجی دسویں تاریخ کو مغرب سے پہلے پہلے طواف افاضہ سے فارغ ہو جائے۔ اگر مغرب سے قبل طواف افاضہ نہیں کیا جا سکا تو احرام کی پابندیاں اس پر عائد ہو جائیں گی جس کی صراحت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے۔
آپ فرماتی ہیں:
’’قربانی والے دن شام کو میری باری کی رات تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس تشریف لانا تھا۔‘‘
چنانچہ آپ تشریف لائے اس دوران میرے پاس وہب بن زمعہ آیا اور اس کے ساتھ آلِ ابی امیہ کا ایک اور آدمی بھی تھا، ان دونوں نے قمیصیں پہن رکھی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہب سے فرمایا:
|