وقت اذان دیتے جب انہیں طلوع فجر کے متعلق اطلاع دی جاتی۔ اس ضمن میں ہم دو باتوں کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱: سپیدہ سحر کا نمایاں ہونا اور فجر صادق کا مشرقی افق کے دائیں بائیں پھلاؤ ایسا امر نہیں جس کا منٹوں اور سیکنڈوں سے تعین کیا جا سکے، ہم نے جو اذانِ فجر کا وقت مقرر کیا ہے وہ محض اندازے اور تخمین پر مبنی ہے۔
۲: آج کل شہری آبادی میں صبح کے وقت روشنیاں بہت ہوتی ہیں، صبح کاذب یا صبح صادق کا کوئی مشاہدہ نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں محکمہ موسمیات کی طرف سے اذان کے لیے اوقات کا تعین کیا جاتا ہے اور اس کے لیے کیلنڈر شائع کیے جاتے ہیں، ہم نے بھی میاں چنوں اور مضافات کی سہولت کے پیش نظر اوقات نماز کے لیے ایک دائمی کیلنڈر شائع کیا ہے۔
جب ہمارے سامنے یہ سوال آیا تو ہم نے مشاہدہ کے لیے ۱۵ نومبر ۲۰۱۴ء بروز ہفتہ چولستان جانے کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات ہم نے چولستان میں بسر کی، ہمارا بہاولپور سے وقت دو منٹ پہلے ہے۔ یعنی اگر ہمارے ہاں صبح صادق پانچ بج کر سولہ منٹ پر ہے تو ضلع بہاولپور میں پانچ بج کر اٹھارہ منٹ پر ہوگی۔ اس رات صبح کا مشاہدہ کرنے کے لیے تقریباً ساڑھے چار بجے اٹھے اور ایک مکان کی چھت پر چڑھ کر مشرقی جانب دیکھتے رہے، پہلے ایک سفید دھاری مشرقی افق پر نمایاں ہوئی جو طول میں آگے کو بڑھنا شروع ہوئی، پھر آدھے پونے گھنٹے بعد نیچے سے روشنیاں نمودار ہوئیں جو دائیں بائیں پھیلنا شروع ہوئیں، جب وہ اچھی طرح پھیل گئیں اور مشرقی افق خوب روشن ہوگیا تو اس وقت ہماری گھڑیوں پر پانچ بج کر بیس منٹ ہوچکے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سوال میں جس مشاہدے کا ذکر ہے وہ ہمارے مشاہدے کے بالکل خلاف ہے۔ ہمارے ہاں جو اوقات نماز شائع شدہ ہیں، وہ ہمارے مشاہدے کے مطابق صحیح ہیں، ممکن ہے پشاور اور مضافات کے لیے سوال میں ذکر کردہ مشاہدہ کارگر ہو لیکن ہمارے پنجاب کے لیے وہ بالکل غلط ہے۔ بہرحال اٹھارہ منٹ پہلے اذان دینے کا مفروضہ ہمارے مشاہدے کے اعتبار سے انتہائی محل نظر ہے۔ واللہ اعلم
عصر کے بعد دو رکعت پڑھنا
سوال :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ عصر کے بعد دو رکعت نفل پڑھتے تھے، حالانکہ خود آپ نے عصر کے بعد نفل پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ اہل علم ان دو رکعات کی بہت فضیلت بیان کرتے ہیں، جب عصر کے بعد نوافل کی ادائیگی منع ہے تو ان دو نفلوں کی فضیلت چہ معنی دارد؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت پڑھا کرتے تھے، ان دو رکعات کی ابتداء سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے ہوئی جبکہ وفد عبدالقیس کی آمد کی وجہ سے ظہر کے بعد کی دو رکعت نہ پڑھ سکے تو آپ نے انہیں عصر کے
|