اگر میت کو اس امر کا علم ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل خانہ غیر شرعی کام کریں گے اور وہ انہیں منع کر کے نہیں گیا تو اُسے اہل خانہ کے چیخنے چلانے اور غیر شرعی کام کرنے سے عذاب ہو گا جیسا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔[1]
اگر مرنے والا ان غیر شرعی کاموں سے منع کر کے گیا ہے تو امید ہے کہ اس کے اہل خانہ کے چیخنے چلانے سے میت پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے ایک عنوان میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔[2]
ہمیں چاہیے کہ میت پر نوحہ کرنے کی بجائے صبر کریں اور میت کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں۔ (واللہ اعلم)
قریب المرگ کو قبلہ رو لٹانا
سوال: کیایہ بات صحیح ہے کہ جو انسان مرض الموت میں مبتلا ہو، اسے قبلہ رو لٹایا جائے نیز اسے قبلہ رو لٹانے کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: قریب المرگ انسان کو قبلہ رخ کرنا تاکہ اسی حالت میں اسے موت آئے، اس میں کوئی حرج نہیں، اگرچہ ایسا کرنا ضروری نہیں، تاہم اس کی مشروعیت میں کوئی شک نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے سیدنا براء بن معرور رضی اللہ عنہ کے متعلق سوال کیا ، لوگوں نے بتایا کہ وہ تو فوت ہو گئے ہیں اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ جب ان کی وفات کا وقت آئے تو انہیں قبلہ رخ کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وصیت سن کر فرمایا: ’’اس نے فطرت کو پا لیا ہے۔‘‘[3]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق حدیث میں ہے کہ صفات سے قبل انہوں نے قبلہ رو ہو کر اپنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ لیا تھا۔[4]
لوگوں کا اس وقت یہ عمل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت یہ بات رائج تھی، تمام مسلمان قریب المرگ کے وقت ایسا کرتے تھے۔ قبلہ رخ کرنے کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں:
٭ اسے سیدھا کمر کے بل لٹا کر اس کے پاؤں قبلہ کی طرف کر دئیے جائیں اور سر کو تھوڑا سا اوپر اٹھا دیاجائے۔
٭ اسے دائیں پہلو پر لٹا کر اس کا منہ قبلہ کی طرف کر دیا جائے۔
ہمارے نزدیک یہ آخری صورت راجح ہے، اس پر عمل کرنے میں چنداں حرج نہیں، امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔[5]واللہ اعلم
|